কিতাবুস সুনান - ইমাম ইবনে মাজা' রহঃ (উর্দু)
كتاب السنن للإمام ابن ماجة
نماز کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৩৯ টি
হাদীস নং: ৬৮৭
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نماز مغرب کا وقت
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مغرب کی نماز پڑھتے، پھر ہم میں سے کوئی شخص نماز پڑھ کر واپس ہوتا، اور وہ اپنے تیر گرنے کے مقام کو دیکھ لیتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١٨ (٥٥٩) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٨ (٦٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٧٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلا ة ٦ (٤١٦) ، سنن النسائی/المواقیت ١٣ (٥٢١) ، مسند احمد (٣/٣٧٠، ٤/١٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی سورج ڈوبتے ہی نماز پڑھ لیا کرتے تھے، بلاوجہ احتیاط کے نام پر تاخیر نہیں کرتے تھے، اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
حدیث نمبر: 687 حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّجَاشِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ، يَقُولُ: كُنَّا نُصَلِّي الْمَغْرِبَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَنْصَرِفُ أَحَدُنَا، وَإِنَّهُ لَيَنْظُرُ إِلَى مَوَاقِعِ نَبْلِهِ. حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، نَحْوَهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৮৮
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نماز مغرب کا وقت
سلمہ بن الاکوع (رض) سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مغرب اس وقت پڑھتے تھے جب سورج غروب ہوجاتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١٨ (٥٦١) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٨ (٦٣٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٦ (٤١٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ٨ (١٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/ ١٥، ٥٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٦ (١٢٤٥) (صحیح )
حدیث نمبر: 688 حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَغْرِبَ إِذَا تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৮৯
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نماز مغرب کا وقت
عباس بن عبدالمطلب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت ہمیشہ فطرت (دین اسلام) پر رہے گی، جب تک وہ مغرب کی نماز میں اتنی تاخیر نہ کرے گی کہ تارے گھنے ہوجائیں ۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن یحییٰ کو کہتے سنا : اس حدیث کے بارے میں اہل بغداد نے اختلاف کیا، چناچہ میں اور ابوبکر الاعین عوام بن عباد بن عوام کے پاس گئے، تو انہوں نے اپنے والد کا اصل نسخہ نکالا تو اس میں یہ حدیث موجود تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥١٢٥، ومصباح الزجاجة : ٢٥٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٦ (٤١٨) مسند احمد (٤/١٤٧، ٥/٤١٧، ٤٢٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧ (١٢٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: شرح السنہ میں ہے کہ اہل علم (صحابہ اور تابعین) نے اختیار کیا ہے کہ مغرب کی نماز جلدی پڑھی جائے، اور جس حدیث میں نبی اکرم ﷺ سے مغرب کی تاخیر منقول ہے وہ بیان جواز کے لئے ہے۔
حدیث نمبر: 689 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَنْبَأَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِالْحَسَنِ، عَنِ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَزَالُ أُمَّتِي عَلَى الْفِطْرَةِ مَا لَمْ يُؤَخِّرُوا الْمَغْرِبَ حَتَّى تَشْتَبِكَ النُّجُومُ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ بْن مَاجَةَ: سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَى، يَقُولُ: اضْطَرَبَ النَّاسُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ بِبَغْدَادَ، فَذَهَبْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ الْأَعْيَنُ، إِلَى الْعَوَّامِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ الْعَوَّامِ، فَأَخْرَجَ إِلَيْنَا أَصْلَ أَبِيهِ، فَإِذَا الْحَدِيثُ فِيهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৯০
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نماز عشاء کا وقت
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ میں اپنی امت کو مشقت میں ڈال دوں گا، تو میں انہیں عشاء کی نماز میں دیر کرنے کا حکم دیتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ١٥ (٢٥٢) ، سنن ابی داود/الطہارة ٢٥ (٤٦) ، سنن النسائی/المواقیت ١٩ (٥٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٧٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٠ (١٦٧) ، مسند احمد (٢/٢٤٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٩ (١٢٥٠) (صحیح )
حدیث نمبر: 690 حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ بِتَأْخِيرِ الْعِشَاءِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৯১
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نماز عشاء کا وقت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ میں اپنی امت کو مشقت میں ڈال دوں گا، تو میں عشاء کی نماز تہائی یا آدھی رات تک مؤخر کرتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٠ (١٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤٥، ٢٥٠، ٤٣٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ راوی کا شک ہے اور دوسری حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ عشاء کی تاخیر تہائی رات تک بہتر ہے، گو دوسری روایات کے مطابق عشاء کا وقت آدھی رات تک ہے۔
حدیث نمبر: 691 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَخَّرْتُ صَلَاةَ الْعِشَاءِ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ أَوْ نِصْفِ اللَّيْلِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৯২
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نماز عشاء کا وقت
حمید کہتے ہیں کہ انس بن مالک (رض) سے پوچھا گیا : کیا نبی اکرم ﷺ نے انگوٹھی بنوائی تھی ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں، ایک رات آپ نے عشاء کی نماز آدھی رات کے قریب مؤخر کی، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری جانب متوجہ ہو کر فرمایا : اور لوگ نماز پڑھ کر سو گئے، اور تم لوگ برابر نماز ہی میں رہے جب تک نماز کا انتظار کرتے رہے ، انس (رض) کہتے ہیں : گویا میں آپ کی انگوٹھی کی چمک دیکھ رہا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الموا قیت ٢٠ (٥٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الموا قیت ٢٥ (٥٧٢) ، اللباس ٤٨ (٥٨٦٩) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٩ (٦٤٠) ، حم ٣/١٨٢، ١٨٩، ٢٠٠، ٢٦٧) (صحیح ) اس سند سے بھی اوپر والی حدیث کے مثل مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : (یہ سند مشہور حسن سلمان کے نسخہ میں موجود نہیں ہے، بلکہ یہ علی بن حسن عبدالحمید کے نسخہ میں صفحہ نمبر ٣٣٣ پر موجود ہے )
حدیث نمبر: 692 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، قَالَ: سُئِلَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، هَلِ اتَّخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمًا؟ قَالَ: نَعَمْ، أَخَّرَ لَيْلَةً صَلَاةَ الْعِشَاءِ الآخِرَةَ إِلَى قَرِيبٍ مِنْ شَطْرِ اللَّيْلِ، فَلَمَّا صَلَّى أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، فَقَالَ: إِنَّ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا وَنَامُوا، وَإِنَّكُمْ لَنْ تَزَالُوا فِي صَلَاةٍ مَا انْتَظَرْتُمُ الصَّلَاةَ، قَالَ أَنَسٌ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِ خَاتَمِهِ. قَالَ الْقَطَّانُ: حَدَّثَنَا أَبُو حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا حمید، نَحْوَهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৯৩
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نماز عشاء کا وقت
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی، پھر آدھی رات تک (حجرہ سے) باہر نہ آئے، پھر نکلے اور لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھائی اور فرمایا : اور لوگ نماز پڑھ کر سو گئے، اور تم برابر نماز ہی میں رہے جب تک نماز کا انتظار کرتے رہے، اگر مجھے کمزوروں اور بیماروں کا خیال نہ ہوتا تو میں اس نماز کو آدھی رات تک مؤخر کرنا پسند کرتا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٧ (٤٢٢) ، سنن النسائی/المواقیت ٢٠ (٥٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٣١٤) (صحیح)
حدیث نمبر: 693 حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى اللَّيْثِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْمَغْرِبِ، ثُمَّ لَمْ يَخْرُجْ حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ، فَخَرَجَ فَصَلَّى بِهِمْ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا وَنَامُوا، وَأَنْتُمْ لَمْ تَزَالُوا فِي صَلَاةٍ مَا انْتَظَرْتُمُ الصَّلَاةَ، وَلَوْلَا الضَّعِيفُ وَالسَّقِيمُ، أَحْبَبْتُ أَنْ أُؤَخِّرَ هَذِهِ الصَّلَاةَ إِلَى شَطْرِ اللَّيْلِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৯৪
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ابر میں نماز جلدی پڑھنا
بریدہ اسلمی (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : بادل کے ایام میں نماز جلدی پڑھ لیا کرو، کیونکہ جس کی نماز عصر فوت ہوگئی، اس کا عمل برباد ہوگیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٠١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٦١) (ضعیف) (سند میں یحییٰ بن ابی کثیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اس لئے یہ ضعیف ہے، لیکن من فاتته صلاة العصر حبط عمله کا جملہ صحیح بخاری میں ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس دن کے اعمال کا پورا ثواب اس کو نہیں ملے گا کیونکہ عصر کی نماز ہی ان اعمال میں ایک بڑا عمل تھا، اسی کو اس نے برباد کردیا، یا اس دن کے کل اعمال لغو اور بیکار ہوجائیں گے، اور اس کو مطلق ثواب نہیں ملے گا، یا عمل سے مراد وہ عمل ہے جس میں وہ مصروف رہا، اور اس کی وجہ سے نماز قضا کی، مطلب یہ ہے کہ اس عمل میں برکت، اور منفعت نہ ہوگی، بلکہ نحوست پیدا ہوگی، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بادل کے دن نماز میں جلدی کرنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ وقت گزر جائے اور خبر نہ ہو، بعضوں نے کہا کہ بادل کے دن عصر اور عشاء میں جلدی کرے، واللہ اعلم۔
حدیث نمبر: 694 حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِييَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَاجِرِ، عَن بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ، فَقَالَ: بَكِّرُوا بِالصَّلَاةِ فِي الْيَوْمِ الْغَيْمِ، فَإِنَّهُ مَنْ فَاتَتْهُ صَلَاةُ الْعَصْرِ حَبِطَ عَمَلُهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৯৫
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نیند کی وجہ سے یا بھو لے سے جس کی نماز رہ گئی ؟۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے اس شخص کے متعلق سوال کیا گیا جو نماز سے غافل ہوجائے، یا سو جائے تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب یاد آجائے تو پڑھ لے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المواقیت ٥٢ (٦١٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٥١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الموا قیت ٣٧ (٥٩٧) ، صحیح مسلم/المساجد ٥٥ (٦٨٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ١١ (٤٤٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٧ (١٧٨) ، مسند احمد (٣/١٠٠، ٢٤٣، ٢٦٦، ٢٦٩، ٢٨٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٦ (١٢٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک روایت میں اتنا زیادہ ہے وہی اس کا وقت ہے یعنی جس وقت جاگ کر اٹھے یا جب نماز یاد آجائے اسی وقت پڑھ لے، اگرچہ اس وقت سورج نکلنے یا ڈوبنے کا وقت ہو یا ٹھیک دوپہر کا وقت ہو، یا فجر یا عصر کے بعد یاد آئے، کیونکہ یہ حدیث عام ہے، اور اس سے ان احادیث کی تخصیص ہوگئی جس میں ان اوقات میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، یہی قول امام احمد کا ہے، اور بعضوں نے کہا نماز پڑھے جب تک سورج نہ نکلے یا ڈوب نہ جائے، اور یہ قول حنفیہ کا ہے، کیونکہ بخاری نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : جب سورج کا کنارہ نکلے تو نماز میں دیر کرو، یہاں تک کہ سورج اونچا ہوجائے، اور جب سورج کا کنارہ غائب ہوجائے، تو نماز میں دیر کرو یہاں تک کہ بالکل غائب ہوجائے ۔
حدیث نمبر: 695 حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ يَغْفُلُ عَنِ الصَّلَاةِ، أَوْ يَرْقُدُ عَنْهَا؟ قَالَ: يُصَلِّيهَا إِذَا ذَكَرَهَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৯৬
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نیند کی وجہ سے یا بھو لے سے جس کی نماز رہ گئی ؟۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص نماز پڑھنا بھول جائے، تو جب یاد آئے پڑھ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٥ (٦٨٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ١١ (٤٤٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٧ (١٧٨) ، سنن النسائی/المواقیت ٥١ (٦١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٠، ٢٤٣، ٢٦٧، ٢٦٩، ٢٨٢) (صحیح )
حدیث نمبر: 696 حَدَّثَنَا جُبَارَةُ بْنُ الْمُغَلِّسِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৯৭
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نیند کی وجہ سے یا بھو لے سے جس کی نماز رہ گئی ؟۔
ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب غزوہ خیبر سے واپس لوٹے تو رات میں چلتے رہے، یہاں تک کہ جب نیند آنے لگی تو رات کے آخری حصہ میں آرام کے لیے اتر گئے، اور بلال (رض) سے کہا : آج رات ہماری نگرانی کرو ، چناچہ بلال (رض) کو جتنی توفیق ہوئی اتنی دیر نماز پڑھتے رہے، اور رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سوتے رہے، جب فجر کا وقت قریب ہوا تو بلال (رض) نے مشرق کی جانب منہ کر کے اپنی سواری پر ٹیک لگا لی، اسی ٹیک لگانے کی حالت میں ان کی آنکھ لگ گئی، نہ تو وہ جاگے اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اور کوئی، یہاں تک کہ انہیں دھوپ لگی تو سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ بیدار ہوئے، اور گھبرا کر فرمایا : بلال !، بلال (رض) نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، جس نے آپ کی جان کو روکے رکھا اسی نے میری جان کو روک لیا ١ ؎، آپ ﷺ نے فرمایا : آگے چلو ، صحابہ کرام اپنی سواریوں کو لے کر کچھ آگے بڑھے، پھر رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا، اور بلال (رض) کو حکم دیا تو انہوں نے نماز کے لیے اقامت کہی، آپ ﷺ نے صبح کی نماز پڑھائی، جب آپ ﷺ نے نماز پوری کرلی تو فرمایا : جو شخص کوئی نماز بھول جائے تو جب یاد آئے پڑھ لے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : أقم الصلاة لذكري نماز اس وقت قائم کرو جب یاد آجائے (سورة : طه : ١٤ ) ۔ راوی کہتے ہیں کہ ابن شہاب اس کو لذكري کے بجائے للذکرى پڑھتے تھے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٥ (٦٨٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ١١ (٤٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٢٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/ التفسیر طہ ٢١ (٣١٦٣) ، سنن النسائی/المواقیت ٥٣ (٦٢٠) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ٦ (٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی میں بھی نیند کی گرفت میں آگیا اور مجھ پر نیند بھی طاری ہوگئی۔ ٢ ؎: مشہور قراءت أقم الصلاة لذكري (طہٰ : ١٤ ) ہی ہے، مذکورہ جگہ سے سواریوں کو ہانک لے جانے اور کچھ دور پر جا کر نماز پڑھنے کی تأویل میں علماء کے مختلف اقوال ہیں بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایسا اس وجہ سے کیا تھا تاکہ سورج اوپر چڑھ آئے اور وہ وقت ختم ہوجائے جس میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے ان کے نزدیک چھوٹی ہوئی نماز بھی ان اوقات میں پڑھنی جائز نہیں، لیکن صحیح قول یہ ہے کہ چھوٹی ہوئی نماز کی قضا ہر وقت جائز ہے، ممنوع اوقات میں نماز ادا کرنے کی ممانعت نوافل کے ساتھ خاص ہے، مالک، اوزاعی، شافعی اور احمد بن حنبل وغیرہم ائمہ کرام کا یہی مذہب ہے، ان لوگوں کے نزدیک اس کی صحیح تاویل یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ ایسی جگہ نماز پڑھنا نہیں چاہتے تھے جہاں لوگوں کو غفلت و نسیان لاحق ہوا ہو، ابوداؤد کی ایک روایت میں تحولوا عن مکانکم الذي أصابتکم فيه الغفلة اس جگہ سے ہٹ جاؤ جہاں پر تم غفلت کا شکار ہوگئے تھے فرما کر نبی اکرم ﷺ نے خود اس کی وجہ بیان فرما دی ہے۔
حدیث نمبر: 697 حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَفَلَ مِنْ غَزْوَةِ خَيْبَرَ، فَسَارَ لَيْلَهُ حَتَّى إِذَا أَدْرَكَهُ الْكَرَى عَرَّسَ، وَقَالَ لِبِلَالٍ: اكْلَأْ لَنَا اللَّيْلَ، فَصَلَّى بِلَالٌ مَا قُدِّرَ لَهُ، وَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ، فَلَمَّا تَقَارَبَ الْفَجْرُ اسْتَنَدَ بِلَالٌ إِلَى رَاحِلَتِهِ مُوَاجِهَ الْفَجْرِ، فَغَلَبَتْ بِلَالًا عَيْنَاهُ وَهُوَ مُسْتَنِدٌ إِلَى رَاحِلَتِهِ، فَلَمْ يَسْتَيْقِظْ بِلَالٌ وَلَا أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِهِ حَتَّى ضَرَبَتْهُمُ الشَّمْسُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلَهُمُ اسْتِيقَاظًا، فَفَزَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَيْ بِلَالُ، فَقَالَ بِلَالٌ: أَخَذَ بِنَفْسِي الَّذِي أَخَذَ بِنَفْسِكَ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: اقْتَادُوا، فَاقْتَادُوا رَوَاحِلَهُمْ شَيْئًا، ثُمَّ تَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَمَرَ بِلَالًا فَأَقَامَ الصَّلَاةَ فَصَلَّى بِهِمُ الصُّبْحَ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ قَالَ: مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ: وَأَقِمِ الصَّلاةَ لِذِكْرِي سورة طه آية 14، قَالَ: وَكَانَ ابْنُ شِهَابٍ يَقْرَؤُهَا لِلذِّكْرَى.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৯৮
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نیند کی وجہ سے یا بھو لے سے جس کی نماز رہ گئی ؟۔
ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ لوگوں نے نیند کی وجہ سے اپنی کوتاہی کا ذکر چھیڑا تو انہوں نے کہا : لوگ سو گئے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوگیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نیند میں کوتاہی نہیں ہے، کوتاہی بیداری کی حالت میں ہے، لہٰذا جب کوئی شخص نماز بھول جائے یا اس سے سو جائے تو جب یاد آئے پڑھ لے، اور اگلے روز اس کے وقت میں پڑھ لے ١ ؎۔ عبداللہ بن رباح کہتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے عمران بن حصین (رض) نے سنا تو کہا : نوجوان ! ذرا غور کرو، تم کیسے حدیث بیان کر رہے ہو ؟ اس حدیث کے وقت میں خود رسول اللہ ﷺ کے ساتھ موجود تھا، وہ کہتے ہیں کہ عمران بن حصین (رض) نے اس میں سے کسی بھی بات کا انکار نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١١ (٤٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٨٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٥ (٦٨١) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٦ (١٧٧) ، سنن النسائی/المواقیت ٥٣ (٦١٨) ، مسند احمد (٥/٣٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ جب یاد آئے یا سونے کے بعد جاگتے ہی اسی وقت نماز پڑھ لے، اور دوسرے دن کوشش کرے کہ نماز کو وقت ہی پر پڑھے، نماز سے سستی کی عادت نہ ڈالے، اگرچہ ظاہر لفظ سے ایسا لگتا ہے کہ جاگنے کے بعد پڑھے، اور دوسرے دن اس کے وقت میں بھی پڑھے، لیکن اس کا کوئی قائل نہیں کہ نماز دو بار پڑھی جائے، نیز جو معنی ہم نے بتایا ہے اس کی تائید سنن دار قطنی کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے۔
حدیث نمبر: 698 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: ذَكَرُوا تَفْرِيطَهُمْ فِي النَّوْمِ، فَقَالَ: نَامُوا حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ فِي النَّوْمِ تَفْرِيطٌ، إِنَّمَا التَّفْرِيطُ فِي الْيَقَظَةِ، فَإِذَا نَسِيَ أَحَدُكُمْ صَلَاةً، أَوْ نَامَ عَنْهَا فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا وَلِوَقْتِهَا مِنَ الْغَدِ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَبَاحٍ: فَسَمِعَنِي عِمْرَانُ بْنُ الْحُصَيْنِ وَأَنَا أُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ، فَقَالَ: يَا فَتًى انْظُرْ كَيْفَ تُحَدِّثُ، فَإِنِّي شَاهِدٌ لِلْحَدِيثِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَمَا أَنْكَرَ مِنْ حَدِيثِهِ شَيْئًا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৯৯
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ عذر اور مجبوری میں نماز کا وقت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے سورج کے ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پا لی، اس نے عصر کی نماز پا لی، اور جس نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی تو اس نے فجر کی نماز پا لی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٢٨ (٥٧٩) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٠ (٦٠٧) ، (تحفة الأشراف : (١٢٢٠٦، ١٣٦٣٦، ١٤٢١٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٥ (٤١٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٣ (١٨٦) ، سنن النسائی/المواقیت ١٠ (٥١٨) ، ٢٨ (٥٥١) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ١ (٥) ، مسند احمد (٢/٢٥٤، ٢٦٠، ٢٨٢، ٣٤٨، ٣٩٩، ٤٦٢، ٤٧٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٢ (١٢٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کی وجہ سے وہ اس قابل ہوگیا کہ اس کے ساتھ باقی اور رکعتیں ملا لے اس کی یہ نماز ادا سمجھی جائے گی قضا نہیں، یہ مطلب نہیں کہ یہ رکعت پوری نماز کے لیے کافی ہوگی، اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نماز کے دوران سورج نکلنے سے اس کی نماز فاسد ہوجائے گی وہ کہتے ہیں کہ اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ اگر اسے اتنا وقت مل گیا جس میں وہ ایک رکعت پڑھ سکتا ہو تو وہ نماز کا اہل ہوگیا، اور وہ نماز اس پر واجب ہوگئی مثلاً بچہ ایسے وقت میں بالغ ہوا یا حائضہ حیض سے پاک ہوئی یا کافر اسلام لے آیا کہ وہ وقت کے اندر ایک رکعت پڑھ سکتا ہو تو وہ نماز اس پر واجب ہوگئی، لیکن ابوداود کی حدیث رقم ( ٥١٧ ) سے جس میں فليتم صلاته کے الفاظ آئے ہیں اس تاویل کی نفی ہو رہی ہے۔
حدیث نمبر: 699 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِيُّ، أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، وَعَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، وَعَنِ الْأَعْرَجِ يُحَدِّثُونَهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الْعَصْرِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَهَا، وَمَنْ أَدْرَكَ مِنَ الصُّبْحِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَهَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭০০
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ عذر اور مجبوری میں نماز کا وقت
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پا لی اس نے فجر کی نماز پا لی، اور جس نے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پا لی، اس نے عصر کی نماز پا لی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٠ (٦٠٩) ، سنن النسائی/المواقیت ٢٧ (٥٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦٧٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٧٨) (صحیح )
حدیث نمبر: 700 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى الْمِصْرِيَّانِ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِييُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الصُّبْحِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَهَا، وَمَنْ أَدْرَكَ مِنَ الْعَصْرِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَغِيبَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَهَا، حَدَّثَنَاجَمِيلُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭০১
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ عشاء سے قبل سونا اور عشاء کے بعد باتیں کرنا منع ہے۔
ابوبرزہ اسلمی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عشاء دیر سے پڑھنا پسند فرماتے تھے، اور اس سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١١ (٥٤١) ، ١٣ (٥٤٧) ، ٢٣ (٥٦٨) ، ٣٨ (٥٩٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ١١ (١٦٨) ، ٢٠ (٥٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٠٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٤٠ (٦٤٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣ (٣٩٨) ، الأدب ٢٧ (٤٨٤٩) ، سنن النسائی/المواقیت ١ (٤٩٦) ، ١٦ (٥٢٦) ، مسند احمد (٤/٤٢٠، ٤٢١، ٤٢٣، ٤٢٤، ٤٢٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٣٩ (١٤٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عشاء کی نماز سے پہلے سونے کو اکثر علماء نے مکروہ کہا ہے، بعضوں نے اس کی اجازت دی ہے، امام نووی نے کہا ہے کہ اگر نیند کا غلبہ ہو، اور نماز کی قضا کا اندیشہ نہ ہو تو سونے میں کوئی حرج نہیں، نیز بات چیت سے مراد لایعنی بات چیت ہے جس سے دنیا اور آخرت کا کوئی مفاد وابستہ نہ ہو۔
حدیث نمبر: 701 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَعَبْدُ الْوَهَّابِ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ أَبِي الْمِنْهَالِ سَيَّارِ بْنِ سَلَامَةَ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَيَسْتَحِبُّ أَنْ يُؤَخِّرَ الْعِشَاءَ، وَكَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَهَا وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭০২
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ عشاء سے قبل سونا اور عشاء کے بعد باتیں کرنا منع ہے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عشاء سے پہلے نہ سوئے، اور نہ اس کے بعد (بلا ضرورت) بات چیت کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٩٧، ومصباح الزجاجة : ٢٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٦٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بیکار اور غیر ضروری باتیں عشاء کے بعد کرنی مکروہ ہے، اور کراہت کی علت یہ ہے کہ شاید رات زیادہ گزر جائے اور تہجد کے لئے آنکھ نہ کھلے، یا فجر کی نماز اول وقت اور باجماعت ادا نہ ہو سکے، اور یہ وجہ بھی ہے کہ سوتے میں گویا آدمی مرجاتا ہے تو بہتر یہ ہے کہ خاتمہ عبادت پر ہو، نہ دنیا کی باتوں پر، اگر دین یا دنیا کی ضروری باتیں ہوں تو ان کا کرنا جائز ہے، دوسری حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عشاء کے بعد مسلمانوں کے کاموں کے متعلق ابوبکر و عمر (رض) سے باتیں کیں۔
حدیث نمبر: 702 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْلَى الطَّائِفِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: مَا نَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ الْعِشَاءِ وَلَا سَمَرَ بَعْدَهَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭০৩
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ عشاء سے قبل سونا اور عشاء کے بعد باتیں کرنا منع ہے۔
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عشاء کے بعد بات چیت پر ہماری مذمت فرمائی یعنی اس پر ہمیں جھڑکا اور ڈانٹا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٢٨٦ ومصباح الزجاجة : ٧٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٩، ٤١٠) (صحیح) (ملاحظہ ہو سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٤٣٥ ) وضاحت : ١ ؎: مشہور حسن کے نسخہ میں زجرنا عنه ہے۔
حدیث نمبر: 703 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَبِيبٍ، وَعَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ، قَالُوا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: جَدَبَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّمَرَ بَعْدَ الْعِشَاءِ، قَال ابْنُ مَاجَهْ: يَعْنِى: زَجَرَنَا عَنْهُ نَهَانَا عَنْهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭০৪
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نماز عشاء کو عتمہ کہنے سے ممانعت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اعراب (دیہاتی لوگ) تمہاری نماز کے نام میں تم پر غالب نہ آجائیں، اس لیے کہ (کتاب اللہ میں) اس کا نام عشاء ہے، اور یہ لوگ اس وقت اونٹنیوں کے دوہنے کی وجہ سے اسے عتمہ کہتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٩ (٦٤٤) ، سنن ابی داود/الأدب ٨٦ (٤٩٨٤) ، سنن النسائی/المواقیت ٢٢ (٥٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٠، ١٩، ٤٩، ١٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عرب کے لوگ سورج ڈوبنے کے بعد جب اندھیرا ہوجاتا تو اپنے جانوروں کا دودھ دوہتے تھے، تاکہ مانگنے والے محتاج دیکھ نہ سکیں اور ان کو دودھ نہ دینا پڑے، پھر وہی لوگ عشاء کی نماز کو عتمہ کہنے لگے، کیونکہ اس کا وقت یہی تھا، نبی اکرم ﷺ نے اس نام کو مکروہ جانا، کیونکہ محتاجوں کو نہ دینا، اور صدقے کے ڈر سے مال کو چھپانا، بخل اور ایک بری صفت ہے، اور نماز ایک عمدہ عبادت ہے، لہذا اس کا یہ نام بالکل غیر موزوں ہے، اور اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بھی اس نماز کو عشاء کہا ہے نہ کہ عتمہ، پس وہی نام بہتر ہے اس پر بھی علماء نے کہا ہے کہ یہ ممانعت تنزیہی ہے، یعنی اولیٰ اور بہتر یہ ہے کہ عتمہ کا لفظ نہ استعمال کیا جائے، اور اس کو اصطلاحی نام عشاء سے پکارا جائے، بعض حدیثوں میں خود عتمہ کا لفظ عشاء کی نماز کے لئے آیا ہے۔
حدیث نمبر: 704 حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي لَبِيدٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَا تَغْلِبَنَّكُمْ الْأَعْرَابُ عَلَى اسْمِ صَلَاتِكُمْ، فَإِنَّهَا الْعِشَاءُ، وَإِنَّهُمْ لَيُعْتِمُونَ بِالْإِبِلِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭০৫
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نماز عشاء کو عتمہ کہنے سے ممانعت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اعراب (بدوی) تمہاری نماز کے نام کے سلسلے میں تم پر غالب نہ آجائیں ، ابن حرملہ نے یہ اضافہ کیا ہے : اس کا نام عشاء ہے، اور یہ اعرابی اسے اس وقت اپنی اونٹنیوں کے دوہنے کی وجہ سے عتمه کہتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٦٥، ومصباح الزجاجة : ٧٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٣٣، ٤٣٨) (حسن صحیح )
حدیث نمبر: 705 حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ . ح وحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا تَغْلِبَنَّكُمْ الْأَعْرَابُ عَلَى اسْمِ صَلَاتِكُمْ، زَادَ ابْنُ حَرْمَلَةَ، فَإِنَّمَا هِيَ الْعِشَاءُ، وَإِنَّمَا يَقُولُونَ الْعَتَمَةُ لِإِعْتَامِهِمْ بِالْإِبِلِ.
তাহকীক: