কিতাবুস সুনান - ইমাম ইবনে মাজা' রহঃ (উর্দু)
كتاب السنن للإمام ابن ماجة
سنت کی پیروی کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২৬৬ টি
হাদীস নং: ৬১
سنت کی پیروی کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ایمان کا بیان۔
جندب بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے، اور ہم طاقتور نوجوان تھے، ہم نے قرآن سیکھنے سے پہلے ایمان کو سیکھا، پھر ہم نے قرآن سیکھا، تو اس سے ہمارا ایمان اور زیادہ (بڑھ) ہوگیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٢٦٤، ومصباح الزجاجة : ٢٣) (صحیح )
حدیث نمبر: 61 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ نَجِيحٍ وَكَانَ ثِقَةً، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ جُنْدُبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ فِتْيَانٌ حَزَاوِرَةٌ، فَتَعَلَّمْنَا الْإِيمَانَ قَبْلَ أَنْ نَتَعَلَّمَ الْقُرْآنَ، ثُمَّ تَعَلَّمْنَا الْقُرْآنَ فَازْدَدْنَا بِهِ إِيمَانًا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৬২
سنت کی پیروی کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ایمان کا بیان۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس امت کے دو گروہ ایسے ہوں گے کہ اسلام میں ان کا کوئی حصہ نہیں : ایک مرجیہ ١ ؎ اور دوسرا قدریہ (منکرین قدر) ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/القدر ١٣ (٢١٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٢٢) (ضعیف) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٧٣ ) (اس کی تحسین امام ترمذی نے کی ہے حسن غریب لیکن اس میں تین راوی ضعیف ہیں، محمد بن فضیل میں تشیع ہے، علی بن نزار ضعیف ہیں، اور نزار عکرمہ سے ایسی احادیث روایت کرتے ہیں جو عکرمہ کی نہیں ہوتیں، لیکن واضح رہے کہ یہ دونوں فرقے (مرجئہ وقدریہ) عقائد میں گمراہی کی وجہ سے اہل سنت کے نزدیک گمراہ فرقوں میں شمار کئے جاتے ہیں ) وضاحت : ١ ؎: مرجئہ ارجاء سے ہے، جس کے معنی تاخیر کے ہیں، یہ ایک گمراہ فرقہ ہے جس کا عقیدہ ہے کہ ایمان کے ساتھ کوئی معصیت (گناہ) نقصان دہ نہیں جیسے کفر کے ساتھ کوئی نیکی نفع بخش نہیں، ان کے نزدیک ایمان محض دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے، جب کہ اہل سنت کے نزدیک ایمان کے تین ارکان ہیں، دل سے تصدیق کرنا، زبان سے اقرار کرنا، اور اعضاء وجوارح سے عمل کرنا۔ ٢ ؎: قدریہ جبریہ کے خلاف ہیں، جو اپنے کو مجبور محض کہتے ہیں اور یہ بڑی گمراہی کی بات ہے، اور قدریہ کی نسبت قدر کی طرف ہے، یعنی اللہ کی تقدیر پر جو اس نے قبل مخلوقات مقدر کی، غرض وہ مدعی ہیں کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے، کفر ہو یا معصیت و گناہ اور انہوں نے انکار کیا کہ یہ امور تقدیر الٰہی ہیں، یہ گمراہ فرقہ ہے اور غلطی پر ہے۔ قضا و قدر پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم یہ اعتقاد رکھیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو ہمارے اعمال و افعال اور ہمارے انجام کار کے بارے میں شروع ہی سے علم ہے، اسی نے ہماری قسمتوں کے فیصلے کر رکھے ہیں، اس لئے ہر بری اور بھلی تقدیر کی بات پر ہمارا ایمان ہے، ساتھ ہی ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بااختیار مخلوق پیدا کیا ہے، جسے عقل و شعور کی نعمت سے نوازا ہے اور اس کی ہدایت کے لئے شروع ہی سے انبیاء و رسل بھیجے ہیں اور آخر میں نبی آخر الزماں محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا تاکہ انسان وحی کی روشنی میں زندگی گزار کر اللہ رب العزت کے یہاں سرخرو ہو۔
حدیث نمبر: 62 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نِزَارٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صِنْفَانِ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ لَيْسَ لَهُمَا فِي الْإِسْلَامِ نَصِيبٌ، الْمُرْجِئَةُ، وَالْقَدَرِيَّةُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৩
سنت کی پیروی کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ایمان کا بیان۔
عمر بن الخطاب (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا، جس کے کپڑے انتہائی سفید اور سر کے بال نہایت کالے تھے، اس پہ سفر کے آثار ظاہر نہیں تھے، اور ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہ تھا، وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھ گیا، اور اپنا گھٹنا آپ ﷺ کے گھٹنے سے ملا لیا، اور اپنے دونوں ہاتھ آپ ﷺ کی دونوں ران پر رکھا، پھر بولا : اے محمد ! اسلام کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا، اور خانہ کعبہ کا حج کرنا ، اس نے کہا : آپ نے سچ فرمایا، تو ہمیں تعجب ہوا کہ خود ہی سوال کر رہا ہے، اور خود ہی جواب کی تصدیق بھی۔ پھر اس نے کہا : اے محمد ! ایمان کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ایمان یہ ہے کہ تم اللہ اور اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں، اس کی کتابوں، یوم آخرت، اور بھلی بری تقدیر پر ایمان رکھو ، اس نے کہا : آپ نے سچ فرمایا، تو ہمیں تعجب ہوا کہ خود ہی سوال کر رہا ہے، اور خود ہی جواب کی تصدیق بھی۔ پھر اس نے کہا : اے محمد ! احسان کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو، اگر تم اس کو نہیں دیکھتے ہو تو یقین رکھو کہ وہ تم کو ضرور دیکھ رہا ہے ۔ پھر اس نے پوچھا : قیامت کب آئے گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جس سے پوچھ رہے ہو، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ١ ؎۔ پھر اس نے پوچھا : اس کی نشانیاں کیا ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : لونڈی اپنے مالکن کو جنے گی (وکیع راوی حدیث نے کہا : یعنی عجمی عورتیں عرب کو جنیں گی) ٢ ؎ اور تم ننگے پاؤں، ننگے بدن، فقیر و محتاج بکریوں کے چرواہوں کو دیکھو گے کہ وہ بڑی بڑی کوٹھیوں اور محلات کے بنانے میں فخر و مسابقت سے کام لیں گے ۔ راوی کہتے ہیں : پھر عمر (رض) نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ مجھ سے تین دن کے بعد ملے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو وہ شخص کون تھا ؟ ، میں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ جبرائیل تھے جو تمہیں تمہارے دین کی اہم اور بنیادی باتیں سکھانے آئے تھے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ١ (٨) ، سنن ابی داود/السنة ١٧ (٤٦٩٥، ٤٦٩٦، ٤٦٩٧) ، سنن الترمذی/الإیمان ٤ (٢٦١٠) ، سنن النسائی/الإیمان ٥ (٤٩٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٧٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٧ (٥٠) ، تفسیر سورة لقمان ٢ (٤٧٧٧) ، مسند احمد (١ / ٢٧، ٢٨، ٥١، ٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ : ١ مفتی سے اگر ایسی بات پوچھی جائے جو اسے معلوم نہیں تو لا أدري کہہ دے یعنی میں نہیں جانتا، اور یہ اس کی کسر شان کا سبب نہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ نے قیامت کے سلسلہ کے سوال کے جواب میں یہی فرمایا۔ 2 اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص عالم کی مجلس میں حاضر ہو اور لوگوں کو کسی مسئلے کے بارے میں پوچھنے کی حاجت ہو تو وہ عالم سے پوچھ لے تاکہ اس کا جواب سب لوگ سن لیں۔ 3 اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مفتی کو چاہیے کہ سائل کو نرمی سے سمجھا دے، اور محبت سے بتلا دے تاکہ علمی اور دینی فوائد کا دروازہ بند نہ ہوجائے، اور سائل کے لئے ضروری ہے کہ وہ عالم دین اور مفتی کے ساتھ کمال ادب کا مظاہرہ کرے، اور اس کی مجلس میں وقار اور ادب سے بیٹھے۔ ٢ ؎: لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی : یعنی ملک فتح ہوں گے، اور لونڈیاں مال غنیمت میں کثرت سے حاصل ہوں گی، اور کثرت سے لوگ ان لونڈیوں کے مالک ہوں گے، اور ان لونڈیوں کی ان کے آقا سے اولاد ہوگی اور وہ آزاد ہوں گے، اور وہ اپنی ماؤں کو لونڈیاں جانیں گے، اور بعض روایتوں میں ربتها کی جگہ ربها وارد ہوا ہے۔ ٣ ؎: اس حدیث کو حدیث جبرئیل کہتے ہیں اور یہ ظاہری اور باطنی ساری عبادات اور اخلاص و عمل کی ساری صورتوں کو شامل ہے، اور ہر طرح کے واجبات اور سنن اور معروف و منکر کو محیط ہے۔
حدیث نمبر: 63 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ كَهْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، عَنِابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ شَعَرِ الرَّأْسِ، لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ، قَالَ: فَجَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْنَدَ رُكْبَتَهُ إِلَى رُكْبَتِهِ، وَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ مَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ: شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامُ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَصَوْمُ رَمَضَانَ، وَحَجُّ الْبَيْتِ، فَقَالَ: صَدَقْتَ، فَعَجِبْنَا مِنْهُ يَسْأَلُهُ، وَيُصَدِّقُهُ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ مَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَرُسُلِهِ، وَكُتُبِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَالْقَدَرِ خَيْرِهِ، وَشَرِّهِ، قَالَ: صَدَقْتَ، فَعَجِبْنَا مِنْهُ يَسْأَلُهُ، وَيُصَدِّقُهُ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ مَا الْإِحْسَانُ؟ قَالَ: أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنَّكَ إِنْ لَا تَرَاهُ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ، قَالَ: فَمَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ: مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، قَالَ: فَمَا أَمَارَتُهَا؟ قَالَ: أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا، قَالَ وَكِيعٌ: يَعْنِي: تَلِدُ الْعَجَمُ الْعَرَبَ، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبِنَاءِ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: فَلَقِيَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ثَلَاثٍ فَقَالَ: أَتَدْرِي مَنِ الرَّجُلُقُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ مَعَالِمَ دِينِكُمْ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৪
سنت کی پیروی کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ایمان کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن لوگوں میں باہر بیٹھے تھے کہ ایک آدمی آپ کے پاس آیا، اور اس نے کہا : اللہ کے رسول ! ایمان کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ایمان یہ ہے کہ تم اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، اس سے ملاقات اور یوم آخرت پر ایمان رکھو ١ ؎۔ اس نے پوچھا : اللہ کے رسول ! اسلام کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرو، فرض نماز قائم کرو، فرض زکاۃ ادا کرو، اور رمضان کے روزے رکھو ۔ اس نے کہا : اللہ کے رسول ! احسان کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو یہ سمجھو کہ وہ تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے ۔ اس نے پوچھا : اللہ کے رسول ! قیامت کب آئے گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جس سے پوچھ رہے ہو وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، لیکن میں تم کو اس کی نشانیاں بتاؤں گا : جب لونڈی اپنی مالکن کو جنے تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے، اور جب بکریوں کے چرواہے اونچی اونچی عمارتوں پر فخر و مسابقت کریں تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے، قیامت کی آمد ان پانچ چیزوں میں سے ایک ہے جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی : إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تکسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت إن الله عليم خبير بیشک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش نازل فرماتا ہے، اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے وہی جانتا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کرے گا، نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ وہ کس سر زمین میں مرے گا، اللہ ہی علیم (پورے علم والا) اور خبیر (خبر رکھنے والا ہے) (سورة لقمان : 34) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٧ (٥٠) ، تفسیر لقمان ٢ (٤٧٧٧) ، صحیح مسلم/الإیمان ١ (٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٢٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/السنة ١٧ (٤٦٩٥) ، سنن النسائی/الإیمان ٥ (٤٩٩٦) ، مسند احمد (٢/ ٤٢٦) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٤٠٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: علماء اہل سنت اور عام محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ایمان تین چیزوں سے مرکب ہے : 1 دل سے یقین کرنا، 2 زبان سے اقرار کرنا، 3 کتاب و سنت سے ثابت شدہ فرائض اور اعمال کو اعضاء وجوارح سے بجا لانا، اور جس قدر صالح اعمال زیادہ ہوں گے ایمان بھی زیادہ ہوگا، اور جس قدر اعمال میں کمی ہوگی ایمان میں کمی ہوگی، کتاب و سنت میں اس پر بیشمار دلائل ہیں۔
حدیث نمبر: 64 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَوْمًا بَارِزًا لِلنَّاسِ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَلِقَائِهِ، وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ الْآخِرِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ: أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ، وَلَا تُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ، وَتُؤْتِى الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْإِحْسَانُ؟ قَالَ: أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنَّكَ إِنْ لَا تَرَاهُ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ: مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، وَلَكِنْ سَأُحَدِّثُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا، إِذَا وَلَدَتِ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا، فَذَلِكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، وَإِذَا تَطَاوَلَ رِعَاءُ الْغَنَمِ فِي الْبُنْيَانِ فَذَلِكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا فِي خَمْسٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ، فَتَلَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ سورة لقمان آية 34.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৫
سنت کی پیروی کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ایمان کا بیان۔
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایمان دل کی معرفت، زبان سے اقرار اور اعضائے بدن سے عمل کا نام ہے ۔ ابوالصلت کہتا ہے : یہ سند ایسی ہے کہ اگر دیوانے پر پڑھ دی جائے تو وہ اچھا ہوجائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٧٦، ومصباح الزجاجة : ٢٤) (موضوع) (اس کی سند میں عبدالسلام بن صالح ابو الصّلت الہروی رافضی کذاب اور متہم بالوضع راوی ہے، اس بناء پر یہ حدیث موضوع ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢٢٧٠ ، والموضو عات لابن الجوزی : ١ /١٢٨، وتلخیص الموضوعات : ٢٦ ب تحقیق سنن ابی داود/ عبد الرحمن الفریوائی )
حدیث نمبر: 65 حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ صَالِحٍ أَبُو الصَّلْتِ الْهَرَوِيُّ، حَدَّثَنَاعَلِيُّ بْنُ مُوسَى الرِّضَا، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْإِيمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ، وَقَوْلٌ بِاللِّسَانِ، وَعَمَلٌ بِالْأَرْكَانِ. قَالَ أَبُو الصَّلْتِ: لَوْ قُرِئَ هَذَا الْإِسْنَادُ عَلَى مَجْنُونٍ لَبَرَأَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৬
سنت کی پیروی کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ایمان کا بیان۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی (یا اپنے پڑوسی) کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٧ (١٣) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٧ (٤٥) ، سنن الترمذی/صفة القیامة ٥٩ (٢٥١٥) ، سنن النسائی/الإیمان ١٩ (٥٠١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٩، ٣/١٧١، ١٧٢، ١٧٦، ٢٠٦) ، سنن الدارمی/الرقاق ٢٩ (٢٧٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کامل مومن نہیں ہوسکتا، اس حدیث سے مسلمانوں کی باہمی خیر خواہی کی اہمیت و فضیلت ظاہر ہوئی، اس سنہری اصول پر اگر مسلمان عمل کرنے لگ جائیں تو معاشرے سے لوٹ کھسوٹ، رشوت، بددیانتی، جھوٹ فریب وغیرہ بیماریاں خودبخود ختم ہوجائیں گی۔
حدیث نمبر: 66 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ، أَوْ قَالَ: لِجَارِهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৭
سنت کی پیروی کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ایمان کا بیان۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد، اس کے والد، اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٧ (١٣) ، ٨ (١٥) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٦ (٤٤) ، سنن النسائی/الایمان ١٩ (٥٠١٦) ، سنن الترمذی/صفة القیامة ٥٩ (٢٥١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٧٧، ٢٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: معلوم ہوا کہ جب تک ساری دنیا کے رسم و رواج اور عادات و رسوم، اور اپنی آل اولاد اور ماں باپ سے زیادہ سنت کی محبت نہ ہو اس وقت تک ایمان کامل نہیں، پھر جتنی اس محبت میں کمی ہوگی اتنی ہی ایمان میں کمی ہوگی۔
حدیث نمبر: 67 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ، وَوَالِدِهِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৮
سنت کی پیروی کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ایمان کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قسم اس ذات کی ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم جنت میں اس وقت تک نہیں داخل ہوسکتے جب تک کہ تم ایمان نہ لے آؤ، اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اسے اپنا لو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے ! آپس میں سلام کو عام کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٢٢ (٥٤) ، سنن الترمذی/الاستئذان ١ (٢٦٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٦٩، ١٢٥١٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأدب ١٤٢ (٥١٩٣) ، مسند احمد (١/١٦٥، ٢/٣٩١) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٣٦٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس کا یہ مطلب نہیں کہ محض سلام کرنے ہی سے تم مومن قرار دیے جاؤ گے، اور جنت کے مستحق ہوجاؤ گے، بلکہ مطلب یہ کہ ایمان اسی وقت مفید ہوگا جب اس کے ساتھ عمل بھی ہوگا، اور سلام اسلام کا ایک شعار اور ایمان کا عملی مظاہرہ ہے، ایمان اور عمل کا اجتماع ہی مومن کو جنت میں لے جائے گا، اس حدیث میں سلام عام کرنے کی تاکید ہے کیونکہ یہ مسلمانوں میں باہمی الفت و محبت پیدا کرنے کا بڑا موثر ذریعہ ہے۔
حدیث نمبر: 68 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَوَ لَا أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ، أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ৬৯
سنت کی پیروی کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ایمان کا بیان۔
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان کو گالی دینا فسق (نافرمانی) ہے، اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٨ (٤٨) ، الأدب ٤٤ (٧٠٤٤) ، الفتن ٨ (٧٠٧٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢٨ (٦٤) ، سنن النسائی/المحاربة (تحریم الدم) ٢٧ (٤١١٤، ٤١١٥، ٤١١٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٤٣، ٩٢٥١، ٩٢٩٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البر والصلة ٥٢ (١٩٨٣) ، الإیمان ١٥ (٢٦٣٥) ، مسند احمد (١/٣٨٥، ٤١١، ٤١٧، ٤٣٣) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٣٩٣) (صحیح )
حدیث نمبر: 69 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْأَعْمَشِ . ح وحَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭০
سنت کی پیروی کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ایمان کا بیان۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے دنیا کو اس حال میں چھوڑا کہ خالص اللہ واحد کی عبادت کرتا رہا، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا، نماز قائم کی، اور زکاۃ ادا کی، تو اس کی موت اس حال میں ہوگی کہ اللہ اس سے راضی ہوگا ۔ انس (رض) نے کہا : یہی اللہ کا دین ہے جس کو رسول لے کر آئے، اور اپنے رب کی طرف سے اس کی تبلیغ کی، اس سے پہلے کہ دین میں لوگوں کی باتوں اور طرح طرح کی خواہشوں کی ملاوٹ اور آمیزش ہو۔ اور اس کی تصدیق اللہ کی کتاب میں سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورة (براءۃ) میں موجود ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فإن تابوا وأقاموا الصلاة وآتوا الزکاة الآية، یعنی : اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم کریں، اور زکاۃ ادا کریں (سورۃ التوبہ : ٥ ) ۔ انس (رض) نے کہا : یعنی بتوں کو چھوڑ دیں اور ان کی عبادت سے دستبردار ہوجائیں، اور نماز قائم کریں، زکاۃ دیں (تو ان کا راستہ چھوڑ دو ) ۔ اور دوسری آیت میں یہ ہے : فإن تابوا وأقاموا الصلاة وآتوا الزکاة فإخوانکم في الدين یعنی : اگر وہ توبہ کریں، نماز قائم کریں، زکاۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں (سورۃ التوبہ : ١١ ) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٣٢، ومصباح الزجاجة : ٢٥) (ضعیف) (سند میں ابو جعفر الرازی اور ربیع بن انس ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: پوری آیت اتنی ہی ہے جو اوپر گذری، اللہ تعالیٰ اس میں مشرکوں کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اگر وہ توبہ کے بعد نماز و زکاۃ ادا کریں تو تمہارے بھائی ہیں، اور خلاصہ حدیث یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو توحید سکھانے کے لئے بھیجا ہے، اور دین کا دارومدار توحید و اخلاص پر ہے، اور نماز و زکاۃ ظاہری اعمال صالحہ میں سب سے اہم اور بنیادی رکن ہیں۔ اس سند سے ربیع بن انس (رح) سے اسی معنی کی حدیث مروی ہے۔
حدیث نمبر: 70 حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ فَارَقَ الدُّنْيَا عَلَى الْإِخْلَاصِ لِلَّهِ وَحْدَهُ، وَعِبَادَتِهِ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، مَاتَ وَاللَّهُ عَنْهُ رَاضٍقَالَ أَنَسٌ: وَهُوَ دِينُ اللَّهِ الَّذِي جَاءَتْ بِهِ الرُّسُلُ وَبَلَّغُوهُ عَنْ رَبِّهِمْ قَبْلَ هَرْجِ الْأَحَادِيثِ، وَاخْتِلَافِ الْأَهْوَاءِ، وَتَصْدِيقُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فِي آخِرِ مَا نَزَلَ يَقُولُ اللَّهُ: فَإِنْ تَابُوا سورة التوبة آية 5 قَالَ: خَلَعُوا الْأَوْثَانِ وَعِبَادَتِهَا وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ سورة التوبة آية 5، وَقَالَ فِي آيَةٍ أُخْرَى: فَإِنْ تَابُوا، وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ، وَآتَوْا الزَّكَاةَ، فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ. حَدَّثَنَا أَبُو حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى الْعَبْسِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، مِثْلَهُ
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭১
سنت کی پیروی کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ایمان کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں، یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور وہ نماز قائم کرنے، اور زکاۃ دینے لگیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٥٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الزکاة ١ (١٣٩٩) ، ٤٠ (١٤٥٧) ، المرتدین ٣ (٦٩٢٤) ، صحیح مسلم/الإیمان ٨ (٢١) ، سنن ابی داود/الزکاة ١ (١٥٥٦) ، سنن الترمذی/الإیمان ١ (٢٦٠٦) ، سنن النسائی/الزکاة ٣ (٢٤٤٢) ، المحاربة ١ (٣٩٨٣) ، مسند احمد (٢/٥٢٨) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٣٩٢٧) (صحیح متواتر) (اس کی سند حسن ہے، لیکن اصل حدیث متواتر ہے ) وضاحت : ١ ؎: اس سے اسلام کے چار بنیادی ارکان معلوم ہوئے : ١ ۔ توحید باری تعالیٰ ، ٢ ۔ رسالت محمدیہ کا یقین و اقرار، ٣ ۔ اقامت نماز، ٤ ۔ زکاۃ کی ادائیگی، یہ یاد رہے کہ دوسری صحیح حدیث : بني الإسلام على خمس میں اسلام کے پانچویں رکن روزہ کا بھی ذکر ہے۔
حدیث نمبر: 71 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ، وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭২
سنت کی پیروی کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ایمان کا بیان۔
معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے لوگوں سے قتال (لڑنے) کا حکم دیا گیا ہے، یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور نماز قائم کرنے، اور زکاۃ دینے لگیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٣٤٠، ومصباح الزجاجة : ٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٨، ٥ ٢٤٥) (صحیح متواتر) (اس کی سند میں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد سے یہ حسن ہے، بلکہ اصل حدیث متواتر ہے، ملاحظہ ہو : مجمع الزوائد : ١ / ٢٤ )
حدیث نمبر: 72 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ بَهْرَامَ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ، وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৩
سنت کی پیروی کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ایمان کا بیان۔
ابن عباس اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم دونوں کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت میں دو قسم کے لوگ ایسے ہوں گے کہ ان کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں : ایک مرجئہ اور دوسرے قدریہ (منکرین قدر) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٤٩٨، ومصباح الزجاجة : ٢٧) (ضعیف) (اس کی سند میں نزار بن حیان ضعیف راوی ہیں، اور عکرمہ سے ایسی روایت کرتے ہیں، جو ان کی نہیں ہوتی، اور عبدالرحمن محمدا للیثی مجہول ہیں )
حدیث نمبر: 73 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل الرَّازِيُّ، أَنْبَأَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ اللَّيْثِيُّ، حَدَّثَنَا نِزَارُ بْنُ حَيَّانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صِنْفَانِ مِنْ أُمَّتِي لَيْسَ لَهُمَا فِي الْإِسْلَامِ نَصِيبٌ، أَهْلُ الْإِرْجَاءِ، وَأَهْلُ الْقَدَرِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৪
سنت کی پیروی کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ایمان کا بیان۔
ابوہریرہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم دونوں کہتے ہیں کہ ایمان بڑھتا، اور گھٹتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٤١١، ١٤٣٥٢) (ضعیف جدًا) (سند میں عبد الوہاب بن مجاہد متروک الحدیث راوی ہے، لیکن سلف صالحین کے ایمان کی زیادتی اور نقصان پر بکثر ت اقوال ہیں، اور آیات کریمہ سے اس کی تصدیق ہوتی ہے، نیز اس باب میں بعض مرفوع روایت مروی ہے، جو صحیح نہیں ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ١١٢٣ )
حدیث نمبر: 74 حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ الْبُخَارِيُّ سَعِيدُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ خَارِجَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ الْوَهَّابِ بْنِ مُجَاهِدٍ، عَنِ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: الْإِيمَانُ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫
سنت کی پیروی کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ایمان کا بیان۔
ابو الدرداء (رض) کہتے ہیں کہ ایمان بڑھتا اور گھٹتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٦٠) (ضعیف) (سند میں حارث کو شک ہے کہ انہوں نے مجاہد سے روایت کی ہے، اس لئے اس سے انقطاع سند کا اشارہ ملتا ہے )
حدیث نمبر: 75 حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ الْبُخَارِيُّ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنِ الْحَارِثِ أَظُنُّهُ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: الْإِيمَانُ يَزْدَادُ، وَيَنْقُصُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৬
سنت کی پیروی کا بیان
পরিচ্ছেদঃ تقدیر کے بیان میں۔
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ جو صادق و مصدوق (یعنی جو خود سچے ہیں اور سچے مانے گئے ہیں) نے بیان کیا کہ پیدائش اس طرح ہے کہ تم میں سے ہر ایک کا نطفہ خلقت ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک جمع رکھا جاتا ہے، پھر وہ چالیس دن تک جما ہوا خون رہتا ہے، پھر چالیس دن تک گوشت کا ٹکڑا ہوتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس کے پاس چار باتوں کا حکم دے کر ایک فرشتہ بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس فرشتہ سے کہتا ہے : اس کا عمل، اس کی مدت عمر، اس کا رزق، اور اس کا بدبخت یا نیک بخت ہونا لکھو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی جنت والوں کا عمل کر رہا ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اس پر اس کا مقدر غالب آجاتا ہے (یعنی لکھی ہوئی تقدیر غالب آجاتی ہے) ، اور وہ جہنم والوں کا عمل کر بیٹھتا ہے، اور اس میں داخل ہوجاتا ہے، اور تم میں سے کوئی جہنم والوں کا عمل کر رہا ہوتا ہے، یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے، کہ اس پر لکھی ہوئی تقدیر غالب آجاتی ہے، اور وہ جنت والوں کا عمل کرنے لگتا ہے، اور جنت میں داخل ہوجاتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٦ (٣٢٠٨) ، الانبیاء ١ (٣٣٣٢) ، القدر ١ (٦٥٩٤) ، التوحید ٢٨ (٧٤٥٤) ، صحیح مسلم/القدر ١ (٢٦٤٣) ، سنن ابی داود/السنة ١٧ (٤٧٠٨) ، سنن الترمذی/القدر ٤ (٢١٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٢، ٤١٤، ٤٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عمل، اجل (عمر) رزق اور سعادت و شقاوت (خوش نصیبی، اور بدنصیبی) یہ سب تقدیر سے ہے، اور اس کو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے حق میں پہلے ہی لکھ دیا ہے، اور یہ سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے، اس لئے ہر آدمی کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت و اطاعت رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق کرکے تقدیر کو اپنے حق میں مفید بنانے کی کوشش کرنی چاہیے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وأن ليس للإنسان إلا ما سعى۔
حدیث نمبر: 76 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ . ح وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ، أَنَّهُ يُجْمَعُ خَلْقُ أَحَدِكُمْ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ إِلَيْهِ الْمَلَكَ فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، فَيَقُولُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ، وَأَجَلَهُ، وَرِزْقَهُ، وَشَقِيٌّ أَمْ سَعِيدٌفَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُهَا، وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُهَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৭
سنت کی پیروی کا بیان
পরিচ্ছেদঃ تقدیر کے بیان میں۔
عبداللہ بن فیروز دیلمی کہتے ہیں کہ میرے دل میں اس تقدیر کے سلسلے میں کچھ شبہات پیدا ہوئے، اور مجھے ڈر لاحق ہوا کہ کہیں یہ شبہات میرے دین اور میرے معاملے کو خراب نہ کردیں، چناچہ میں ابی بن کعب (رض) کے پاس آیا، اور عرض کیا : ابوالمنذر ! میرے دل میں اس تقدیر کے سلسلے میں کچھ شبہات وارد ہوئے ہیں، مجھے ڈر ہے کہ کہیں میرا دین اور میرا معاملہ خراب نہ ہوجائے، لہٰذا آپ اس سلسلہ میں مجھ سے کچھ بیان کریں تاکہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے کچھ فائدہ پہنچائے، انہوں نے کہا : اگر اللہ تعالیٰ تمام آسمان و زمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو انہیں عذاب دے سکتا ہے، اور وہ ظالم نہیں ہوگا، اور اگر ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے حق میں ان کے اعمال سے زیادہ بہتر ہے، اور اگر تمہارے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو (یا کہا : احد پہاڑ کے برابر مال ہو) اور تم اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دو ، تو یہ اس وقت تک قبول نہیں ہوگا جب تک کہ تم تقدیر پہ ایمان نہ لاؤ، تم یہ یقین رکھو کہ جو (خیر و شر) تمہیں پہنچا وہ تم سے چوکنے والا نہ تھا، اور جو تمہیں نہیں پہنچا وہ تمہیں پہنچنے والا نہیں تھا ١ ؎، اور اگر تم اس اعتقاد کے علاوہ پر مرے تو جہنم میں داخل ہو گے، اور کوئی حرج نہیں کہ تم میرے بھائی عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو، عبداللہ بن فیروز دیلمی کہتے ہیں : میں عبداللہ (رض) کے پاس آیا، اور ان سے پوچھا، تو انہوں نے بھی وہی بتایا جو ابی (رض) نے بتایا تھا، اور مجھ سے کہا : کوئی مضائقہ نہیں کہ تم حذیفہ (رض) کے پاس جاؤ۔ چناچہ میں حذیفہ (رض) کے پاس آیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے بھی وہی بتایا جو ان دونوں (ابی بن کعب اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) نے بتایا تھا، اور انہوں نے کہا : تم زید بن ثابت (رض) کے پاس جاؤ اور ان سے بھی پوچھ لو۔ چناچہ میں زید بن ثابت (رض) کے پاس آیا، اور ان سے بھی پوچھا، تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : اگر اللہ تعالیٰ تمام آسمان و زمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو انہیں عذاب دے سکتا ہے، اور وہ ظالم نہیں ہوگا، اور اگر ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے حق میں ان کے اعمال سے بہتر ہے، اور اگر تمہارے پاس احد کے برابر سونا یا احد پہاڑ کے برابر سونا ہو، اور تم اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو وہ اس وقت تک تمہاری جانب سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول نہ ہوگا جب تک کہ تم پوری تقدیر پہ کلی طور پر ایمان نہ لاؤ، اور تم یہ یقین رکھو کہ جو (خیر و شر) تمہیں پہنچا ہے تم سے چوکنے والا نہ تھا، اور جو تم سے چوک گیا وہ تمہیں پہنچنے والا نہیں تھا، اور اگر تم اس عقیدہ کے علاوہ پر مرے تو جہنم میں داخل ہو گے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/السنة ١٧ (٤٦٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٢، ٣٧٢٦، ٩٣٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٨٢، ١٨٥، ١٨٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں ایمان کے مزہ اور اس کی حلاوت و شیرینی کا ذکر ہے جو محسوس اشیاء کے مزہ کی طرح نہیں ہے، دنیاوی کھانے پینے کا ایک مزہ ہوتا ہے، دوسری چیز کھانے کے بعد پہلی چیز کا مزہ جاتا رہتا ہے، لیکن ایمان کی حلاوت تا دیر باقی رہتی ہے، حتی کہ آدمی کبھی خلوص دل، حضور قلب اور خشوع و خضوع کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے تو اس کی حلاوت اسے مدتوں محسوس ہوتی ہے، لیکن اس ایمانی حلاوت اور مزہ کا ادراک صرف اسی کو ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے اس نعمت سے بہرہ ور کیا ہو۔ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مقدر کر رکھا ہے، تقدیر کو اصابت سے تعبیر کیا، اس لئے کہ تقدیر کا لکھا ہو کر رہے گا، تو جو کچھ تقدیر تھی اللہ تعالیٰ نے اسے بندہ کے حق میں لکھ دی ہے وہ اس کو مل کر رہے گی، مقدر کو ٹالنے کے اسباب اختیار کرنے کے بعد بھی وہ مل کر رہے گا، انسان سے وہ خطا نہیں کرے گا۔ ایک معنی یہ بھی ہے کہ تم کو جو کچھ بھی پہنچ گیا ہے اس کے بارے میں یہ نہ سوچو کہ وہ تم سے خطا کرنے والی چیز ہے، تو یہ نہ کہو کہ اگر میں نے ایسے ایسے کیا ہوتا تو ایسا نہ ہوتا، اس لئے کہ اس وقت تم جس حالت سے دور چار ہوئے اس کا ٹلنا ناممکن ہے، تو تمہارا ہر اندازہ اور ہر تدبیر اس تقدیر کے وقوع پذیر ہونے میں غیر موثر ہے، حدیث کی شرح دونوں معنوں میں صحیح ہے، پس اللہ تعالیٰ نے بندہ کے حق میں جو کچھ مقدر کر رکھا ہے وہ اس کو مل کر رہے گا، اس کا خطا کرجانا ناممکن ہے، اس بات پر ایمان کے نتیجہ میں مومن ایمان کا مزہ چکھے گا، اس لئے کہ اس ایمان کی موجودگی میں آدمی کو اس بات کا علم اور اس پر اطمینان ہوگا کہ مقدر کی بات لابدی اور ضروری طور پر واقع ہوگی، اس کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک آدمی اپنے بچوں کو لے کر کسی تفریح گاہ میں سیر و تفریح کے لئے جاتا ہے، اور اس کا بچہ وہاں گہرے پانی میں ڈوب کر مرجاتا ہے، تو یہ کہنا صحیح نہیں کہ اگر وہ سیر کے لئے نہ نکلا ہوتا تو وہ بچہ نہ مرتا، اس لئے کہ جو کچھ ہوا یہ اللہ کی طرف سے مقدر تھا، اور تقدیر کے مطابق لازمی طور پر ہوا جس کو روکا نہیں جاسکتا تھا، تو جو کچھ ہونے والی چیز تھی اس نے خطا نہیں کی، ایسی صورت میں انسان کو اطمینان قلب حاصل ہوجاتا ہے اور وہ اس صورت حال پر اللہ کے فیصلہ پر صبر کرتا ہے بلکہ اس پر راضی ہوتا ہے، اور اس کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ جو کچھ ہوا اس سے فرار کی کوئی صورت نہیں تھی، اور دل میں ہر طرح کے اٹھتے خیالات اور اندازے سب شیطانی وساوس کے قبیل سے ہیں، پس آدمی کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو ایسا اور ایسا ہوتا، کیونکہ لو شیطان کی دخل اندازی کا راستہ کھول دیتا ہے، اس معنی کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا ہے : ما أصاب من مصيبة في الأرض ولا في أنفسکم إلا في کتاب من قبل أن نبرأها إن ذلک على الله يسير (٢٢) لكيلا تأسوا على ما فاتکم ولا تفرحوا بما آتاکم والله لا يحب کل مختال فخور یعنی : نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے، نہ (خاص) تمہاری جانوں میں، مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے، یہ (کام) اللہ تعالیٰ پر (بالکل) آسان ہے، تاکہ تم اپنے سے فوت شدہ کسی چیز پر رنجیدہ نہ ہوجایا کرو، اور نہ عطا کردہ چیز پر اترا جاؤ، اور اترانے والے شیخی خوروں کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔ (سورۃ الحدید : ٢٢ -٢٣) آدمی اگر تقدیر پر یقین کرے تو مصائب و حوادث پر اس کو اطمینان قلب ہوگا، اور وہ اس پر صبر کرے گا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر راضی ہوگا، اور اسے ایمان کی حلاوت کا احساس ہوگا۔ حدیث کا دوسرا ٹکڑا : وما أخطأك لم يكن يصيبك پہلے فقرے ہی کے معنی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو تقدیر میں نہ ہونا لکھ دیا ہے، وہ کبھی واقع نہیں ہوسکتی، مثلاً اگر ایک آدمی نے کسی تجارت گاہ کا رخ کیا، لیکن وہاں پہنچنے پر پتہ چلا کہ بازار بند ہوگیا، تو اس کو کہا جائے گا کہ یہ تجارتی فائدہ جو تم کو نہ ملا، اسے تم کو ہرگز ہرگز نہ ملنا تھا چاہے تم اس کے لئے جتنا بھی جتن اور کوشش کرتے، یا ہم یہ کہیں کہ یہ تم کو حاصل ہونے والا نہ تھا اس لئے کہ معاملہ اللہ کے قضا و قدر کے مطابق طے ہونا تھا، آدمی کو اس عقیدہ کا تجربہ کرکے یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا اس کے بعد اس کو ایمان کی حلاوت کا احساس ہوا یا نہیں۔ ٢ ؎: سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ انسان تقدیر پر ایمان رکھے، اور شیطانی وسوسوں سے بچے، اور تقدیر کے منکروں سے میل جول نہ رکھے بلکہ ان سے دور رہے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان کے اچھے اعمال بغیر ایمان کے ہرگز قبول نہیں ہوتے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر انسان اس قضا و قدر کے اسلامی عقیدہ کے سوا کسی اور عقیدہ پر مرا تو وہ جہنم میں جائے گا، مراد اس سے جہنم میں ہمیشہ رہنے کا نہیں ہے، جیسے کافروں کے لئے جہنم میں ہمیشہ رہنا ہے، اس لئے کہ اہل قبلہ اپنے گناہوں کی سزا میں عذاب پانے کے بعد اگر وہ موحد ہیں تو جہنم سے نکالے جائیں گے۔
حدیث نمبر: 77 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سِنَانٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ خَالِدٍ الْحِمْصِيِّ، عَنِ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ، قَالَ: وَقَعَ فِي نَفْسِي شَيْءٌ مِنْ هَذَا الْقَدَرِ خَشِيتُ أَنْ يُفْسِدَ عَلَيَّ دِينِي وَأَمْرِي، فَأَتَيْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ، فَقُلْتُ: أَبَا الْمُنْذِرِ، إِنَّهُ قَدْ وَقَعَ فِي نَفْسِي شَيْءٌ مِنْ هَذَا الْقَدَرِ فَخَشِيتُ عَلَى دِينِي وَأَمْرِي، فَحَدِّثْنِي مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَنْفَعَنِي بِهِ، فَقَالَ: لَوْ أَنَّ اللَّهَ عَذَّبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ، وَأَهْلَ أَرْضِهِ، لَعَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ، وَلَوْ رَحِمَهُمْ لَكَانَتْ رَحْمَتُهُ خَيْرًا لَهُمْ مِنْ أَعْمَالِهِمْ، وَلَوْ كَانَ لَكَ مِثْلُ جَبَلِ أُحُدٍ ذَهَبًا، أَوْ مِثْلُ جَبَلِ أُحُدٍ تُنْفِقُهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، مَا قُبِلَ مِنْكَ حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، فَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، وَأَنَّ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، وَأَنَّكَ إِنْ مُتَّ عَلَى غَيْرِ هَذَا دَخَلْتَ النَّارَ، وَلَا عَلَيْكَ أَنْ تَأْتِيَ أَخِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ فَتَسْأَلَهُ، فَأَتَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ فَسَأَلْتُهُ، فَذَكَرَ مِثْلَ مَا قَالَ أُبَيٌّ، وَقَالَ لِي، وَلَا عَلَيْكَ أَنْ تَأْتِيَ حُذَيْفَةَ، فَأَتَيْتُ حُذَيْفَةَ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ مِثْلَ مَا قَالَا، وَقَال: ائْتِ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَاسْأَلْهُ، فَأَتَيْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَوْ أَنَّ اللَّهَ عَذَّبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ، وَأَهْلَ أَرْضِهِ، لَعَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ، وَلَوْ رَحِمَهُمْ لَكَانَتْ رَحْمَتُهُ خَيْرًا لَهُمْ مِنْ أَعْمَالِهِمْ، وَلَوْ كَانَ لَكَ مِثْلُ أُحُدٍ ذَهَبًا، أَوْ مِثْلُ جَبَلِ أُحُدٍ ذَهَبًا تُنْفِقُهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، مَا قَبِلَهُ مِنْكَ حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ كُلِّهِ، فَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، وَمَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، وَأَنَّكَ إِنْ مُتَّ عَلَى غَيْرِ هَذَا دَخَلْتَ النَّارَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৮
سنت کی پیروی کا بیان
পরিচ্ছেদঃ تقدیر کے بیان میں۔
علی (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے تھے، آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی، آپ ﷺ نے اس سے زمین کو کریدا، پھر اپنا سر اٹھایا اور فرمایا : جنت و جہنم میں ہر شخص کا ٹھکانہ لکھ دیا گیا ہے ، عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم اس پر بھروسہ نہ کرلیں (اور عمل چھوڑ دیں) ، آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، عمل کرو، اور صرف لکھی تقدیر پر بھروسہ نہ کر کے بیٹھو، اس لیے کہ ہر ایک کو اسی عمل کی توفیق دی جاتی ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے ، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی : فأما من أعطى واتقى وصدق بالحسنى فسنيسره لليسرى وأما من بخل واستغنى وکذب بالحسنى فسنيسره للعسرى، یعنی : جس نے اللہ کی راہ میں دیا اپنے رب سے ڈرا، اور اچھی بات کی تصدیق کرتا رہا، تو ہم بھی اس پر سہولت کا راستہ آسان کردیں گے، لیکن جس نے بخیلی کی، لاپرواہی برتی اور اچھی بات کو جھٹلایا تو ہم بھی اس کی تنگی و مشکل کے سامان میسر کردیں گے (سورة الليل : 5-10) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٢ (١٣٦٢) ، تفسیر القرآن ٩٢ (٤٩٤٥) ، الأدب ١٢٠ (٦٢١٧) ، القدر ٤ (٦٦٠٥) ، التوحید ٥٤ (٧٥٥٢) ، صحیح مسلم/القدر ١ (٢٦٤٧) ، سنن ابی داود/السنة ١٧ (٤٦٩٤) ، سنن الترمذی/القدر ٣ (٢١٣٦) ، التفسیر ٨٠ (٣٣٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٢، ١٢٩، ١٣، ١٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس میں ان شیطانی وسوسوں کا جواب ہے جو اکثر لوگوں کے ذہنوں میں آتے رہتے ہیں کہ جب جنتی اور جہنمی کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہے تو اب عمل کیونکر کریں ؟ لیکن نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عمل کرو، تقدیر پر بھروسہ کر کے بیٹھ نہ جاؤ، کیونکہ ہر شخص کو اسی عمل کی توفیق دی جاتی ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے ، اس لئے نیک عمل کرتے رہنا چاہیے کیونکہ یہی جنت میں جانے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے مستحق بننے کا ذریعہ ہے۔
حدیث نمبر: 78 حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَوَكِيعٌ عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيِّ، قَال: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِيَدِهِ عُودٌ فَنَكَتَ فِي الْأَرْضِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ كُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنِ الْجَنَّةِ، وَمَقْعَدُهُ مِنَ النَّارِ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا نَتَّكِلُ؟ قَالَ: لَا، اعْمَلُوا، وَلَا تَتَّكِلُوا، فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ، ثُمَّ قَرَأَ فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى 5 وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى 6 فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى 7 وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى 8 وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى 9 فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى 10 سورة الليل آية 5-10.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৯
سنت کی پیروی کا بیان
পরিচ্ছেদঃ تقدیر کے بیان میں۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : طاقتور مومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کمزور مومن سے بہتر اور پیارا ہے ١ ؎، دونوں میں سے ہر ایک میں خیر ہے، ہر اس چیز کی حرص کرو جو تمہیں نفع دے، اور اللہ سے مدد طلب کرو، دل ہار کر نہ بیٹھ جاؤ، اگر تمہیں کوئی نقصان پہنچے تو یہ نہ کہو : کاش کہ میں نے ایسا ویسا کیا ہوتا تو ایسا ہوتا، بلکہ یہ کہو : جو اللہ نے مقدر کیا تھا اور جو اس نے چاہا کیا، اس لیے کہ اگر مگر شیطان کے عمل کے لیے راستہ کھول دیتا ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/القدر ٨ (٢٦٦٤) ، سنن النسائی/ في الیوم واللیلة (٦٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/ ٣٦٦، ٣٧) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٤١٦٨) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ وہ عبادت کی ادائیگی اور فرائض و سنن، اور دعوت و تبلیغ اور معاشرتی خدمت وغیرہ امور کے قیام میں کمزور مومن سے زیادہ مستعد اور توانا ہوتا ہے۔ ٢ ؎: یعنی اگر مگر سے شیطان کو گمراہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔
حدیث نمبر: 79 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الطَّنَافِسِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنِ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ، وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ، وَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، وَلَا تَعْجَزْ، فَإِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ، فَلَا تَقُلْ: لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ كَذَا، وَكَذَا، وَلَكِنْ قُلْ: قَدَّرَ اللَّهُ، وَمَا شَاءَ فَعَلَ، فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ৮০
سنت کی پیروی کا بیان
পরিচ্ছেদঃ تقدیر کے بیان میں۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آدم و موسیٰ (علیہا السلام) میں مناظرہ ہوا، موسیٰ (علیہ السلام) نے آدم (علیہ السلام) سے کہا : اے آدم ! آپ ہمارے باپ ہیں، آپ نے ہمیں ناکام و نامراد بنادیا، اور اپنے گناہ کے سبب ہمیں جنت سے نکال دیا، تو آدم (علیہ السلام) نے ان سے کہا : اے موسیٰ ! اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنی ہم کلامی کے لیے منتخب کیا، اور تمہارے لیے اپنے ہاتھ سے تورات لکھی، کیا تم مجھ کو ایک ایسے عمل پر ملامت کرتے ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے چالیس سال پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا !، نبی اکرم ﷺ نے تین بار فرمایا : چناچہ آدم موسیٰ پر غالب آگئے، آدم موسیٰ پر غالب آگئے، آدم موسیٰ پر غالب آگئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التفسیر سورة طہ ١ (٤٧٣٦) ، القدر ١١ (٦٦١٤) ، صحیح مسلم/القدر ٢ (٢٦٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٢٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/السنة ١٧ (٤٧٠١) ، سنن الترمذی/القدر ٢ (٢١٣٥) ، موطا امام مالک/القدر ١ (١) ، مسند احمد (٢/٢٤٨، ٢٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: آدم (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) پر غالب آگئے اور ان سے جیت گئے یعنی انہیں اس بات کا قائل کرلیا کہ بندہ اپنے افعال میں خود مختار نہیں ہے، اور اللہ تعالیٰ نے جس کام کو اس کے لئے مقدر کردیا ہے اس کے نہ کرنے پر وہ قادر نہیں، لہذا جو کچھ انہوں نے کیا اس پر انہیں ملامت کرنا درست نہیں، صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ آدم (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا کہ تم نے تورات میں پڑھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے کتنے برس پہلے تورات لکھی ؟ انہوں نے کہا : چالیس برس، پھر آدم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم نے اس میں پڑھا ہے : وعصى آدم ربه فغوى یعنی آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب کی نافرمانی کی، تو راہ بھول گئے ، انہوں نے کہا : ہاں، آدم (علیہ السلام) نے فرمایا : پھر بھلا تم مجھے کیا ملامت کرتے ہو ؟ باقی وہی مضمون ہے، اور نبی اکرم ﷺ نے تین بار فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) جیت گئے، اور یہ تکرار تاکید کے لئے تھی تاکہ بخوبی یہ بات سمجھ لی جائے کہ آدم (علیہ السلام) مستقل فاعل نہ تھے کہ فعل و ترک کا اختیار کامل رکھتے ہوں، بلکہ جو تقدیر الٰہی تھی اس کا ان سے وقوع ہوا، اور اللہ کی مرضی و مشیت کا ہونا ضروری تھا، گویا کہ آدم (علیہ السلام) نے یہ کہا کہ پھر تم اس علم سابق سے جو بذریعہ تورات تمہیں حاصل ہوچکا ہے کیوں غافل ہوتے ہو، اور صرف میرے کسب (یعنی فعل اور کام) کو یاد کرتے ہو، جو صرف سبب تھا، اور اصل سے غفلت کرتے ہو جو تقدیر الٰہی تھی اور تم جیسے منتخب اور پسندیدہ اور اسرار و رموز الٰہی کے واقف کار سے یہ بات نہایت بعید ہے، اور ان دونوں نبیوں میں یہ گفتگو عالم تکلیف و اسباب میں نہیں ہوئی کہ یہاں وسائط و اکتساب سے قطع نظر اور وسائل اور مواصلات سے چشم پوشی جائز نہیں بلکہ عالم علوی میں ہوئی جو اہل تقوی کی ارواح کے اکٹھا ہونے کی جگہ ہے، اور مکلف اس وقت تک ملامت کا مستحق ہوگا جب وہ عہد تکلیف و مسئولیت میں ہو تو اس پر ملامت امر معروف میں داخل ہے، اور معاصی سے ممانعت کا سبب ہے، اور دوسروں کے لئے عبرت اور موعظت کا سبب ہے، اور جب آدمی تکلیف و مسئولیت کے مقام سے نکل گیا تو اب وہ ملامت کا مستحق نہ رہا بلکہ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو چیز مقدر کردی تھی اس کا ظہور ہوا، اور یہ بھی واضح ہے کہ یہ گفتگو اس وقت ہوئی جب آدم (علیہ السلام) تائب ہوچکے تھے، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی تھی، اور تائب ملامت کے لائق نہیں ہوتا، مقصد یہ ہے کہ اس واقعہ سے فساق و فجار اپنے فسق و فجور اور بد اعمالیوں پر استدلال نہیں کرسکتے۔
حدیث نمبر: 80 حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَيَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، سَمِعَطَاوُسًا، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يُخْبِرُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَى، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُونَا، خَيَّبْتَنَا، وَأَخْرَجْتَنَا مِنَ الْجَنَّةِ بِذَنْبِكَ، فَقَالَ لَهُ آدَمُ: يَا مُوسَى، اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِكَلَامِهِ، وَخَطَّ لَكَ التَّوْرَاةَ بِيَدِهِ، أَتَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ قَدَّرَهُ اللَّهُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي بِأَرْبَعِينَ سَنَةً؟ فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى، فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى، فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى ثَلَاثًا.
তাহকীক: