কিতাবুস সুনান - ইমাম আবু দাউদ রহঃ (উর্দু)

كتاب السنن للإمام أبي داود

مناسک حج کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ৩২৫ টি

হাদীস নং: ১৯০১
مناسک حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صفا اور مر وہ کا بیان
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے کہا اور میں ان دنوں کم سن تھا : مجھے اللہ تعالیٰ کے ارشاد إن الصفا والمروة من شعائر الله کے سلسلہ میں بتائیے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی ان کے درمیان سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، عائشہ (رض) نے جواب دیا : ہرگز نہیں، اگر ایسا ہوتا جیسا تم کہہ رہے ہو تو اللہ کا قول فلا جناح عليه أن يطوف بهما کے بجائے فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما تو اس پر ان کی سعی نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہوتا، یہ آیت دراصل انصار کے بارے میں اتری، وہ مناۃ (یعنی زمانہ جاہلیت کا بت) کے لیے حج کرتے تھے اور مناۃ قدید ١ ؎ کے سامنے تھا، وہ لوگ صفا ومروہ کے بیچ سعی کرنا برا سمجھتے تھے، جب اسلام آیا تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : إن الصفا والمروة من شعائر الله ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٧٩ (١٦٤٣) ، والعمرة ١٠ (١٧٩٠) ، وتفسیرالبقرة ٢١(٤٤٩٥) ، و تفسیر النجم ٣ (٤٨٦١) ، سنن النسائی/الحج ١٦٨ (٢٩٧١) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٨٢٠، ١٧١٥١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٤٣ (١٢٧٧) ، سنن الترمذی/تفسیر سورة البقرة (٢٩٦٩) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٤٣ (٢٩٨٦) ، موطا امام مالک/الحج ٤٢ (١٢٩) ، مسند احمد (٦/١٤٤، ١٦٢، ٢٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ” مناة قديد “ : مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک دیہات کا نام ہے۔ ٢ ؎ : بلاشبہ صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ( سورة البقرة : ١٥٨ )
حدیث نمبر: 1901 حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ. ح وحَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِعَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ حَدِيثُ السِّنِّ:‏‏‏‏ أَرَأَيْتِ قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى:‏‏‏‏ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158 ؟ فَمَا أَرَى عَلَى أَحَدٍ شَيْئًا أَنْ لَا يَطَّوَّفَ بِهِمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ كَلَّا، ‏‏‏‏‏‏لَوْ كَانَ كَمَا تَقُولُ، ‏‏‏‏‏‏كَانَتْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَطَّوَّفَ بِهِمَا، ‏‏‏‏‏‏إِنَّمَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي الْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏كَانُوا يُهِلُّونَ لِمَنَاةَ وَكَانَتْ مَنَاةُ حَذْوَ قُدَيْدٍ وَكَانُوا يَتَحَرَّجُونَ أَنْ يَطُوفُوا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا جَاءَ الْإِسْلَامُ، ‏‏‏‏‏‏سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯০২
مناسک حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صفا اور مر وہ کا بیان
عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کیا تو بیت اللہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی، آپ کے ساتھ کچھ ایسے لوگ تھے جو آپ کو آڑ میں لیے ہوئے تھے، تو عبداللہ (رض) سے پوچھا گیا : کیا رسول اللہ ﷺ کعبہ میں داخل ہوئے ؟ انہوں نے جواب دیا : نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٥٣ (١٦٠٠) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٤٤ (٢٩٩٠) ، ( تحفة الأشراف : ٥١٥٥، ٥١٥٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٦٨ (١٣٣٢) ، مسند احمد (٤/٣٥٣، ٣٥٥، ٣٨١) ، سنن الدارمی/المناسک ٧٧ (١٩٦٣) (صحیح )
حدیث نمبر: 1902 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْتَمَرَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ وَصَلَّى خَلْفَ الْمَقَامِ رَكْعَتَيْنِ وَمَعَهُ مَنْ يَسْتُرُهُ مِنَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لِعَبْدِ اللَّهِ:‏‏‏‏ أَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكَعْبَةَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯০৩
مناسک حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صفا اور مر وہ کا بیان
اس سند سے بھی عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے یہی حدیث مروی ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے : پھر آپ صفا ومروہ آئے اور ان کے درمیان سات بار سعی کی، پھر اپنا سر منڈایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٥١٥٥، ٥١٥٦) (صحیح )
حدیث نمبر: 1903 حَدَّثَنَا تَمِيمُ بْنُ الْمُنْتَصِرِ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى، ‏‏‏‏‏‏بِهَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏زَادَ:‏‏‏‏ ثُمَّ أَتَى الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ فَسَعَى بَيْنَهُمَا سَبْعًا ثُمَّ حَلَقَ رَأْسَهُ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯০৪
مناسک حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صفا اور مر وہ کا بیان
کثیر بن جمہان سے روایت ہے کہ صفا ومروہ کے درمیان عبداللہ بن عمر (رض) سے ایک شخص نے پوچھا : ابوعبدالرحمٰن ! میں آپ کو (عام چال چلتے) دیکھتا ہوں جب کہ لوگ دوڑتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : اگر میں عام چال چلتا ہوں تو اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو عام چال چلتے دیکھا ہے اور اگر میں دوڑ کر کرتا ہوں تو اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سعی (دوڑتے) کرتے دیکھا ہے اور میں بہت بوڑھا شخص ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٣٩ (٨٦٤) ، سنن النسائی/الحج ١٧٤ (٢٩٧٩) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٤٣ (٢٩٨٨) ، ( تحفة الأشراف : ٧٣٧٣، ٧٣٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٥٣) (صحیح )
حدیث نمبر: 1904 حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ كَثِيرِ بْنِ جُمْهَانَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بَيْنَ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةِ:‏‏‏‏ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي أَرَاكَ تَمْشِي وَالنَّاسُ يَسْعَوْنَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنْ أَمْشِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ أَسْعَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْعَى، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا شَيْخٌ كَبِيرٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯০৫
مناسک حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج کا حال
جعفر بن محمد اپنے والد محمد (محمد باقر) سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ (رض) کے پاس آئے جب ہم ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے آنے والوں کے بارے میں (ہر ایک سے) پوچھا یہاں تک کہ جب مجھ تک پہنچے تو میں نے کہا : میں محمد بن علی بن حسین ہوں، تو انہوں نے اپنا ہاتھ میرے سر کی طرف بڑھایا، اور میرے کرتے کے اوپر کی گھنڈی کھولی، پھر نیچے کی کھولی، اور پھر اپنی ہتھیلی میرے دونوں چھاتیوں کے بیچ میں رکھی، میں ان دنوں جوان تھا، پھر کہا : خوش آمدید، اے میرے بھتیجے ! جو چاہو پوچھو، میں نے ان سے سوالات کئے، وہ نابینا ہوچکے تھے اور نماز کا وقت آگیا، تو وہ ایک کپڑا اوڑھ کر کھڑے ہوگئے (یعنی ایک ایسا کپڑا جو دہرا کر کے سلا ہوا تھا) ، جب اسے اپنے کندھے پر ڈالتے تو چھوٹا ہونے کی وجہ سے وہ کندھے سے گر جاتا، چناچہ انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی اور ان کی چادر ان کے بغل میں تپائی پر رکھی ہوئی تھی، میں نے عرض کیا : مجھے اللہ کے رسول کے حج کا حال بتائیے، پھر انہوں نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور نو کی گرہ بنائی پھر بولے : رسول اللہ ﷺ نو سال تک (مدینہ میں) حج کئے بغیر رہے، پھر دسویں سال لوگوں میں اعلان کیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ حج کو جانے والے ہیں، چناچہ مدینہ میں لوگ کثرت سے آگئے ١ ؎، ہر ایک کی خواہش تھی کہ وہ آپ ﷺ کی اقتداء میں حج کرے، اور آپ ہی کی طرح سارے کام انجام دے، چناچہ رسول اللہ ﷺ نکلے اور آپ کے ساتھ ہم بھی نکلے، ہم لوگ ذی الحلیفہ پہنچے تو اسماء بنت عمیس (رض) کے یہاں محمد بن ابی بکر (رض) کی ولادت ہوئی، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھوایا : میں کیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم غسل کرلو، اور کپڑے کا لنگوٹ باندھ لو، اور احرام پہن لو ، پھر رسول اللہ ﷺ نے (ذو الحلیفہ کی) مسجد میں نماز پڑھی، پھر قصواء (نامی اونٹنی) پر سوار ہوئے، یہاں تک کہ جب بیداء میں اونٹنی کو لے کر سیدھی ہوگئی (جابر (رض) کہتے ہیں) تو میں نے تاحد نگاہ دیکھا کہ آپ ﷺ کے سامنے سوار بھی ہیں پیدل بھی، اسی طرح معاملہ دائیں جانب تھا، اسی طرح بائیں جانب، اور اسی طرح آپ کے پیچھے، اور رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان میں تھے ١ ؎، آپ ﷺ پر قرآن نازل ہو رہا تھا، اور آپ ﷺ اس کا معنی سمجھتے تھے، چناچہ جیسے آپ ﷺ کرتے ویسے ہی ہم بھی کرتے۔ آپ ﷺ نے توحید پر مشتمل تلبیہ : لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لک لبيك إن الحمد والنعمة لک والملک لا شريك لك پکارا، اور لوگ وہی تلبیہ پکارتے رہے جسے آپ ﷺ پکارا کرتے تھے ٢ ؎، تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں اس میں سے کسی بھی لفظ سے منع نہیں کیا، بلکہ آپ ﷺ اپنا تلبیہ ہی برابر کہتے رہے۔ ہماری نیت صرف حج کی تھی، ہمیں پتہ نہیں تھا کہ عمرہ بھی کرنا پڑے گا ٣ ؎، جب ہم آپ ﷺ کے ساتھ بیت اللہ پہنچے تو آپ ﷺ نے حجر اسود کا استلام کیا پھر تین پھیروں میں رمل کیا، اور چار پھیروں میں عام چال چلے، پھر مقام ابراہیم کے پاس آئے اور یہ آیت پڑھی : واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى ٤ ؎، اور مقام ابراہیم کو اپنے اور بیت اللہ کے بیچ میں رکھا۔ (محمد بن جعفر) کہتے ہیں : میرے والد کہتے تھے (ابن نفیل اور عثمان کی روایت میں ہے) کہ میں یہی جانتا ہوں کہ جابر (رض) نے اسے نبی اکرم ﷺ سے نقل کیا ہے (اور سلیمان کی روایت میں ہے) میں یہی جانتا ہوں کہ انہوں نے کہا : رسول ﷺ نے دونوں رکعتوں میں قل هو الله أحد اور قل يا أيها الکافرون پڑھا ٥ ؎، پھر بیت اللہ کی طرف لوٹے اور حجر اسود کا استلام کیا، اس کے بعد (مسجد کے) دروازے سے صفا کی طرف نکل گئے جب صفا سے قریب ہوئے تو إن الصفا والمروة من شعائر الله پڑھا اور فرمایا : ہم بھی وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ہے ، چناچہ آپ ﷺ نے صفا سے ابتداء کی اور اس پر چڑھے یہاں تک کہ بیت اللہ کو دیکھا، تو اللہ کی بڑائی اور وحدانیت بیان کی اور فرمایا : لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملک وله الحمد يحيي ويميت وهو على كل شىء قدير لا إله إلا الله وحده أنجز وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده پھر اس کے درمیان میں دعا مانگی اور اس طرح تین بار کہا، پھر مروہ کی طرف اتر کر آئے، جب آپ ﷺ کے قدم ڈھلکنے لگے تو آپ ﷺ نے بطن وادی ٦ ؎ میں رمل کیا یہاں تک کہ جب چڑھنے لگے تو عام چال چلے، یہاں تک کہ مروہ آئے تو وہاں بھی وہی کیا جو صفا پہ کیا تھا، جب طواف کا آخری پھیرا مروہ پہ ختم ہوا تو فرمایا : اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا جو کہ بعد میں معلوم ہوا تو میں ہدی نہ لاتا اور میں اسے عمرہ بنا دیتا، لہٰذا تم میں سے جس کے ساتھ ہدی نہ ہو تو وہ حلال ہوجائے، اور اسے عمرہ بنا لے ۔ سبھی لوگ حلال ہوگئے اور بال کتروا لیے سوائے نبی اکرم ﷺ اور ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی تھی۔ پھر سراقہ بن جعشم (رض) کھڑے ہوئے اور انہوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا یہ (عمرہ) صرف اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ ہمیش کے لیے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے میں داخل کیں اور فرمایا : عمرہ حج میں اسی طرح داخل ہوگیا ، اسے دو مرتبہ فرمایا : (صرف اسی سال کے لیے) نہیں، بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لیے (صرف اسی سال کے لیے) نہیں، بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لیے ، اور علی (رض) یمن سے نبی اکرم ﷺ کے ہدی کے اونٹ لے کر آئے تو فاطمہ (رض) کو ان لوگوں میں سے پایا جنہوں نے احرام کھول ڈالا تھا، وہ رنگین کپڑے زیب تن کئے ہوئے تھیں، اور سرمہ لگا رکھا تھا، علی (رض) کو یہ ناگوار لگا، وہ کہنے لگے : تمہیں کس نے اس کا حکم دیا تھا ؟ وہ بولیں : میرے والد نے۔ علی (رض) (اپنے ایام خلافت میں) عراق میں کہا کرتے تھے کہ میں ان کاموں سے جن کو فاطمہ نے کر رکھا تھا غصہ میں بھرا ہوا رسول اللہ ﷺ کے پاس پوچھنے کے لیے آیا جو فاطمہ نے آپ ﷺ کے متعلق بتائی تھی، اور جس پر میں نے ناگواری کا اظہار کیا تھا، تو انہوں نے کہا کہ مجھے میرے والد نے اس کا حکم دیا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس نے سچ کہا، اس نے سچ کہا، تم نے حج کی نیت کرتے وقت کیا کہا تھا ؟ ، عرض کیا : میں نے یوں کہا تھا : اے اللہ ! میں اسی کا احرام باندھتا ہوں جس کا تیرے رسول نے باندھا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا : میرے ساتھ تو ہدی ہے اب تم بھی احرام نہ کھولنا ۔ جابر (رض) کہتے ہیں : ہدی کے جانوروں کی مجموعی تعداد جو علی (رض) یمن سے لے کر آئے تھے اور جو رسول اللہ ﷺ مدینہ سے لے کر آئے تھے کل سو (١٠٠) تھی، چناچہ تمام لوگوں نے احرام کھول دیا، اور بال کتروائے سوائے نبی اکرم ﷺ اور ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی تھی۔ جابر (رض) کہتے ہیں : جب یوم الترویہ (ذو الحجہ کا آٹھواں دن) آیا تو سب لوگوں نے منیٰ کا رخ کیا اور حج کا احرام باندھا، رسول اللہ ﷺ بھی سوار ہوئے، اور منیٰ پہنچ کر آپ ﷺ نے وہاں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں ادا کیں۔ پھر کچھ دیر ٹھہرے یہاں تک کہ سورج نکل آیا، آپ ﷺ نے اپنے لیے بالوں سے بنا ہوا ایک خیمہ کا حکم دیا، تو وادی نمرہ میں خیمہ لگایا گیا، پھر رسول اللہ ﷺ چلے، قریش کو اس بات میں شک نہیں تھا کہ رسول اللہ ﷺ مزدلفہ میں مشعر حرام ٧ ؎ کے پاس ٹھہریں گے جیسے جاہلیت میں قریش کیا کرتے تھے، لیکن رسول اللہ ﷺ آگے بڑھ گئے یہاں تک کہ عرفات جا پہنچے ٨ ؎ تو دیکھا کہ خیمہ نمرہ میں لگا دیا گیا ہے، آپ ﷺ وہاں اترے یہاں تک کہ جب سورج ڈھل گیا تو قصواء کو لانے کا حکم فرمایا، اس پر کجاوہ باندھا گیا، آپ ﷺ اس پر سوار ہوئے یہاں تک کہ وادی کے اندر آئے، تو لوگوں کو خطاب کیا اور فرمایا : تمہاری جانیں اور تمہارے مال تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارا یہ دن، تمہارے اس مہینے، اور تمہارے اس شہر میں۔ سنو ! جاہلیت کے زمانے کی ہر بات میرے قدموں تلے پامال ہوگئی (یعنی لغو اور باطل ہوگئی اور اس کا اعتبار نہ رہا) جاہلیت کے سارے خون معاف ہیں اور سب سے پہلا خون جسے میں معاف کرتا ہوں وہ ابن ربیعہ یا ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کا ہے۔ وہ بنی سعد میں دودھ پی رہا تھا۔ اسے ہذیل کے لوگوں نے قتل کردیا تھا (وہ نبی اکرم ﷺ کا چچا زاد بھائی تھا) اور جاہلیت کے تمام سود ختم ہیں سب سے پہلا سود جسے میں ختم کرتا ہوں وہ اپنا سود ہے یعنی عباس بن عبدالمطلب کا کیونکہ سود سبھی ختم ہیں خواہ وہ کسی کے بھی ہوں۔ اور عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، اس لیے کہ تم نے انہیں اللہ کی امان کے ساتھ اپنے قبضہ میں لیا ہے، اور تم نے اللہ کے حکم سے ان کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر اس شخص کو نہ آنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو، اب اگر وہ ایسا کریں تو انہیں بس اس قدر مارو کہ ہڈی نہ ٹوٹنے پائے، اور انہیں تم سے دستور کے مطابق کھانا لینے اور کپڑا لینے کا حق ہے۔ میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوطی سے پکڑے رہو گے تو اس کے بعد کبھی گمراہ نہ ہو گے، وہ اللہ کی کتاب ہے۔ (اچھا بتاؤ) تم سے قیامت کے روز میرے بارے میں سوال کیا جائے گا تو تمہارا جواب کیا ہوگا ؟ لوگوں نے کہا : ہم گواہی دیں گے کہ آپ ﷺ نے اللہ کا حکم پہنچا دیا، حق ادا کردیا، اور نصیحت کی، پھر آپ ﷺ نے اپنی انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا، پھر لوگوں کی طرف جھکایا، اور فرمایا : اے اللہ ! تو گواہ رہ، اے اللہ ! تو گواہ رہ ۔ پھر بلال (رض) نے اذان دی اور اقامت کہی تو آپ ﷺ نے ظہر پڑھی اور انہوں نے پھر اقامت کہی تو آپ ﷺ نے عصر کی نماز پڑھی یہاں تک کہ میدان عرفات آئے تو اپنی اونٹنی قصواء کا پیٹ صخرات (بڑے پتھروں) کی جانب کیا، اور حبل المشاۃ کو اپنے سامنے کیا، اور قبلہ رخ ہوئے، اور شام تک ٹھہرے رہے یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا اور سورج کی ٹکیہ غائب ہونے کے بعد زردی کچھ کم ہوگئی۔ آپ ﷺ نے اسامہ (رض) کو اپنے پیچھے بٹھا لیا، پھر عرفات سے لوٹے، قصواء کی باگ آپ ﷺ نے کھینچ کر رکھی تھی یہاں تک کہ اس کا سر پالان کے سر سے چھو جایا کرتا تھا، آپ ﷺ اپنے داہنے ہاتھ کے اشارہ سے لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ : لوگو ! اطمینان سے چلو ! ، لوگو ! اطمینان سے چلو !، جب آپ ﷺ کسی بلندی پر آتے تو باگ ڈھیلی چھوڑ دیتے تاکہ وہ چڑھ سکے یہاں تک کہ مزدلفہ پہنچے تو مغرب اور عشاء ایک اذان اور دو اق امتوں کے ساتھ ملا کر پڑھیں۔ عثمان کہتے ہیں : دونوں کے بیچ میں کوئی نفلی نماز نہیں پڑھی پھر سارے راوی متفق ہیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ لیٹ گئے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی تو آپ ﷺ نے فجر پڑھی یہاں تک کہ صبح خوب اچھی طرح روشن ہوگئی، سلیمان کہتے ہیں (یہ نماز) آپ ﷺ نے ایک اذان اور ایک اقامت سے (پڑھی) ، پھر سارے راوی متفق ہیں) ، پھر آپ ﷺ قصواء پر سوار ہوئے یہاں تک کہ مشعر حرام کے پاس آئے، اس پر چڑھے، (عثمان اور سلیمان کہتے ہیں) پھر قبلہ رخ ہوئے اور اللہ کی تحمید، تکبیر اور تہلیل کی، (عثمان نے یہ اضافہ کیا کہ) آپ ﷺ نے توحید بیان کی۔ پھر آپ ﷺ وہاں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ خوب روشنی ہوگئی اس کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے آپ ﷺ وہاں سے چل پڑے، اور فضل بن عباس (رض) کو اپنے پیچھے سوار کرلیا، وہ نہایت عمدہ بال والے گورے خوبصورت شخص تھے، جب رسول اللہ ﷺ چلے تو آپ کا گزر ایسی عورتوں پر ہوا جو ہودجوں میں بیٹھی ہوئی جا رہی تھیں، فضل ان کی طرف دیکھنے لگے، رسول اللہ ﷺ نے اپنا ہاتھ فضل کے چہرے پر رکھ دیا تو فضل نے اپنا چہرہ دوسری طرف پھیرلیا، آپ ﷺ نے بھی اپنا ہاتھ دوسری جانب موڑ دیا تو فضل نے اپنا رخ اور جانب موڑ لیا اور دیکھنے لگے، یہاں تک کہ جب وادی محسر میں آئے تو اپنی سواری کو ذرا حرکت دی (یعنی ذرا تیز چلایا) پھر درمیانی راستے ٩ ؎ سے چلے جو جمرہ عقبہ پہنچاتا ہے یہاں تک کہ جب اس جمرے کے پاس آئے جو درخت کے پاس ہے تو اسے سات کنکریاں ماریں، ہر کنکری پر تکبیر کہی، کنکری اتنی بڑی تھی کہ انگلی میں رکھ کر پھینک رہے تھے، آپ ﷺ نے وادی کے اندر سے کنکریاں ماریں پھر آپ ﷺ وہاں سے نحر کرنے کی جگہ کو آئے، اور اپنے ہاتھ سے (٦٣) اونٹنیاں نحر کیں، اور پھر علی (رض) کو حکم دیا تو باقی انہوں نے نحر کیں، آپ ﷺ نے انہیں بھی اپنے ہدی میں شریک کرلیا (یعنی اپنے ہدی کے اونٹوں میں سے کچھ اونٹ انہیں بھی نحر کرنے کے لیے دے دیئے) پھر ہر اونٹ میں سے گوشت کا ایک ایک ٹکڑا لینے کا حکم دیا، تو وہ سب ٹکڑے ایک دیگ میں رکھ کر پکائے گئے (آپ ﷺ اور علی رضی اللہ عنہ) دونوں نے ان کا گوشت کھایا اور ان کا شوربہ پیا، (سلیمان کہتے ہیں) پھر آپ ﷺ سوار ہوئے اور بیت اللہ کی طرف چلے، آپ ﷺ نے مکہ میں ١٠ ؎ ظہر پڑھی۔ پھر بنی عبدالمطلب کے پاس آئے، وہ لوگ آب زمزم پلا رہے تھے فرمایا : اے بنی عبدالمطلب ! پانی کھینچو، اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تمہارے سقایہ پر لوگ تم پر غالب آجائیں گے ١ ١ ؎ تو میں بھی تمہارے ساتھ پانی کھینچتا، ان لوگوں نے ایک ڈول آپ ﷺ کو بھی دیا، آپ ﷺ نے اس میں سے پیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٩ (١٢١٨) ، سنن النسائی/الحج ٤٦ (٢٧١٣) ، ٥١ (٢٧٤١) ، ٥٢ (٢٧٤٤) ، ٧٣ (٢٨٠٠) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٨٤ (٣٠٧٤) ، ( تحفة الأشراف : ٢٥٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٢٠، ٣٣١، ٣٣٣، ٣٤٠، ٣٧٣، ٣٨٨، ٣٩٤، ٣٩٧) ، سنن الدارمی/المناسک ١١(١٨٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بعض لوگوں نے یہ تعداد (٩٠) ہزار لکھی ہے، اور بعض نے ایک لاکھ تیس ہزار کہا ہے۔ ٢ ؎ : زمانہ جاہلیت میں تلبیہ میں لبيك اللهم لبيك لا شريك لك “ کے بعد ”إلا شريكًا هو لک تملکه بڑھا کر کہا جاتا تھا۔ ٣ ؎ : یعنی عمرہ کا بالکل قصد نہیں تھا، یا عمرہ کو حج کے مہینوں میں جائز ہی نہیں سمجھتے تھے۔ ٤ ؎ : اور مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنالو (سورۃ البقرۃ : ١٢٥) ۔ ٥ ؎ : پہلی رکعت میں قل يا أيها الکافرون پڑھی اور دوسری میں قل هو الله أحد۔ ٦ ؎ : حرم مکی کی تعمیر جدید میں دو سبز نشان سے اس وادی کی حد مقرر کردی گئی ہے، جن کو میلین اخضرین کہا جاتا ہے۔ ٧ ؎ : ” مشعر حرام “: مزدلفہ میں ایک مشہور پہاڑی کا نام ہے اسے قزح بھی کہا جاتا ہے۔ ٨ ؎ : زمانہ جاہلیت میں قریش مزدلفہ میں ٹھہر جاتے تھے ، عرفات نہیں جاتے تھے، اور باقی لوگ عرفات جاتے تھے ، ان کا خیال تھا کہ نبی اکرم ﷺ بھی قریش کی اتباع کریں گے، لیکن آپ ﷺ وہاں نہیں ٹھہرے اور عرفات چل دیئے۔ ٩ ؎ : اس کو طریق مازمین (دو پہاڑوں کا نام ہے) کہتے ہیں، عرفات سے اسی راستہ سے واپس ہونا سنت ہے، یہ اس راستہ کے علاوہ ہے جس سے رسول اکرم ﷺ عرفات گئے تھے، راستہ کی یہ تبدیلی نیک فال کے طور پر بھی ہے۔ ١٠ ؎ : یہی راجح قول ہے اس کے برخلاف ایک روایت آتی ہے جس میں ظہر منیٰ میں پڑھنے کا ذکر ہے، علماء نے دونوں میں تطبیق اس طرح دی ہے کہ آپ ﷺ نے زوال سے پہلے طواف افاضہ کیا پھر مکہ میں اول وقت پر ظہر پڑھی پھر منیٰ واپس آئے تو وہاں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ظہر پڑھی، اور بعد والی نماز آپ ﷺ کی نفل ہوگئی۔ ١ ١ ؎ : آپ ﷺ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر میں بھی پانی نکالنے میں لگ جاؤں تو لوگ اس کو بھی حج کی ایک ذمہ داری سمجھ لیں گے، اور اس کے لئے بھیڑ لگائیں گے، پھر تم ڈر کی وجہ سے اس خدمت سے علاحدہ ہوجاؤ گے کیونکہ تم لوگوں سے نہیں لڑ سکو گے، اور وہ تم پر غالب آجائیں گے۔
حدیث نمبر: 1905 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّقَيْلِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏وَسُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيَّانِوَرُبَّما زَادَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ الْكَلِمَةَ وَالشَّيْءَ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ دَخَلْنَا عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَيْهِ سَأَلَ عَنِ الْقَوْمِ حَتَّى انْتَهَى إِلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَهْوَى بِيَدِهِ إِلَى رَأْسِي فَنَزَعَ زِرِّي الْأَعْلَى ثُمَّ نَزَعَ زِرِّي الْأَسْفَلَ ثُمَّ وَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ ثَدْيَيَّ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ غُلَامٌ شَابٌّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَرْحَبًا بِكَ وَأَهْلًا يَا ابْنَ أَخِي، ‏‏‏‏‏‏سَلْ عَمَّا شِئْتَ فَسَأَلْتُهُ وَهُوَ أَعْمَى، ‏‏‏‏‏‏وَجَاءَ وَقْتُ الصَّلَاةِ فَقَامَ فِي نِسَاجَةٍ مُلْتَحِفًا بِهَا، ‏‏‏‏‏‏يَعْنِي ثَوْبًا مُلَفَّقًا، ‏‏‏‏‏‏كُلَّمَا وَضَعَهَا عَلَى مَنْكِبِهِ رَجَعَ طَرَفَاهَا إِلَيْهِ مِنْ صِغَرِهَا فَصَلَّى بِنَا وَرِدَاؤُهُ إِلَى جَنْبِهِ عَلَى الْمِشْجَبِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أَخْبِرْنِي عَنْ حَجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ بِيَدِهِ:‏‏‏‏ فَعَقَدَ تِسْعًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَثَ تِسْعَ سِنِينَ لَمْ يَحُجَّ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أُذِّنَ فِي النَّاسِ فِي الْعَاشِرَةِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجٌّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ بَشَرٌ كَثِيرٌ كُلُّهُمْ يَلْتَمِسُ أَنْ يَأْتَمَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَعْمَلَ بِمِثْلِ عَمَلِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى أَتَيْنَا ذَا الْحُلَيْفَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَوَلَدَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ فَأَرْسَلَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ أَصْنَعُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اغْتَسِلِي وَاسْتَذْفِرِي بِثَوْبٍ وَأَحْرِمِي، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ نَاقَتُهُ عَلَى الْبَيْدَاءِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ جَابِرٌ:‏‏‏‏ نَظَرْتُ إِلَى مَدِّ بَصَرِي مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ مِنْ رَاكِبٍ وَمَاشٍ وَعَنْ يَمِينِهِ مِثْلُ ذَلِكَ وَعَنْ يَسَارِهِ مِثْلُ ذَلِكَ وَمِنْ خَلْفِهِ مِثْلُ ذَلِكَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا وَعَلَيْهِ يَنْزِلُ الْقُرْآنُ وَهُوَ يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ فَمَا عَمِلَ بِهِ مِنْ شَيْءٍ عَمِلْنَا بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالتَّوْحِيدِ:‏‏‏‏ لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، ‏‏‏‏‏‏لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، ‏‏‏‏‏‏لَا شَرِيكَ لَكَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَهَلَّ النَّاسُ بِهَذَا الَّذِي يُهِلُّونَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا مِنْهُ وَلَزِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَلْبِيَتَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ جَابِرٌ:‏‏‏‏ لَسْنَا نَنْوِي إِلَّا الْحَجَّ، ‏‏‏‏‏‏لَسْنَا نَعْرِفُ الْعُمْرَةَ حَتَّى إِذَا أَتَيْنَا الْبَيْتَ مَعَهُ اسْتَلَمَ الرُّكْنَ فَرَمَلَ ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا ثُمَّ تَقَدَّمَ إِلَى مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ فَقَرَأَ:‏‏‏‏ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125 فَجَعَلَ الْمَقَامَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَكَانَ أَبِي، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ ابْنُ نُفَيْلٍ وَ عُثْمَانُ:‏‏‏‏ وَلَا أَعْلَمُهُ ذَكَرَهُ إِلَّا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ سُلَيْمَانُ: وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ بِ:‏‏‏‏ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْبَيْتِ فَاسْتَلَمَ الرُّكْنَ ثُمَّ خَرَجَ مِنَ الْبَابِ إِلَى الصَّفَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا دَنَا مِنْ الصَّفَا قَرَأَ:‏‏‏‏ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158 نَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَبَدَأَ بِالصَّفَا فَرَقِيَ عَلَيْهِ حَتَّى رَأَى الْبَيْتَ فَكَبَّرَ اللَّهَ وَوَحَّدَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ أَنْجَزَ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ دَعَا بَيْنَ ذَلِكَ وَقَالَ مِثْلَ هَذَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ نَزَلَ إِلَى الْمَرْوَةِ حَتَّى إِذَا انْصَبَّتْ قَدَمَاهُ رَمَلَ فِي بَطْنِ الْوَادِي حَتَّى إِذَا صَعَدَ مَشَى حَتَّى أَتَى الْمَرْوَةَ فَصَنَعَ عَلَى الْمَرْوَةِ مِثْلَ مَا صَنَعَ عَلَى الصَّفَا حَتَّى إِذَا كَانَ آخِرُ الطَّوَافِ عَلَى الْمَرْوَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ لَمْ أَسُقْ الْهَدْيَ وَلَجَعَلْتُهَا عُمْرَةً، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ لَيْسَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيُحْلِلْ وَلْيَجْعَلْهَا عُمْرَةً، ‏‏‏‏‏‏فَحَلَّ النَّاسُ كُلُّهُمْ وَقَصَّرُوا إِلَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ سُرَاقَةُ بْنُ جُعْشُمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَلِعَامِنَا هَذَا أَمْ لِلْأَبَدِ ؟ فَشَبَّكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَابِعَهُ فِي الْأُخْرَى، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ هَكَذَا مَرَّتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏لَا بَلْ لِأَبَدِ أَبَدٍ، ‏‏‏‏‏‏لَا بَلْ لِأَبَدِ أَبَدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَقَدِمَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ الْيَمَنِ بِبُدْنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا مِمَّنْ حَلَّ وَلَبِسَتْ ثِيَابًا صَبِيغًا وَاكْتَحَلَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْكَرَ عَلِيٌّ ذَلِكَ عَلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ أَمَرَكِ بِهَذَا ؟ فَقَالَتْ:‏‏‏‏ أَبِي، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ عَلِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ بِالْعِرَاقِ:‏‏‏‏ ذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحَرِّشًا عَلَى فَاطِمَةَ فِي الْأَمْرِ الَّذِي صَنَعَتْهُ مُسْتَفْتِيًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الَّذِي ذَكَرَتْ عَنْهُ فَأَخْبَرْتُهُ أَنِّي أَنْكَرْتُ ذَلِكَ عَلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ إِنَّ أَبِي أَمَرَنِي بِهَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ صَدَقَتْ صَدَقَتْ، ‏‏‏‏‏‏مَاذَا قُلْتَ حِينَ فَرَضْتَ الْحَجَّ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنِّي أُهِلُّ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنَّ مَعِيَ الْهَدْيَ فَلَا تَحْلِلْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَكَانَ جَمَاعَةُ الْهَدْيِ الَّذِي قَدِمَ بِهِ عَلِيٌّ مِنْ الْيَمَنِ وَالَّذِي أَتَى بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمَدِينَةِ مِائَةً فَحَلَّ النَّاسُ كُلُّهُمْ وَقَصَّرُوا إِلَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ وَوَجَّهُوا إِلَى مِنًى أَهَلُّوا بِالْحَجِّ، ‏‏‏‏‏‏فَرَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِمِنًى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ وَالصُّبْحَ ثُمَّ مَكَثَ قَلِيلًا حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ وَأَمَرَ بِقُبَّةٍ لَهُ مِنْ شَعْرٍ فَضُرِبَتْ بِنَمِرَةٍ فَسَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَشُكُّ قُرَيْشٌ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاقِفٌ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ بِالْمُزْدَلِفَةِ كَمَا كَانَتْ قُرَيْشٌ تَصْنَعُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَجَازَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَى عَرَفَةَ فَوَجَدَ الْقُبَّةَ قَدْ ضُرِبَتْ لَهُ بِنَمِرَةٍ فَنَزَلَ بِهَا حَتَّى إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ أَمَرَ بِالْقَصْوَاءِ فَرُحِلَتْ لَهُ فَرَكِبَ حَتَّى أَتَى بَطْنَ الْوَادِي، ‏‏‏‏‏‏فَخَطَبَ النَّاسَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏أَلَا إِنَّ كُلَّ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ تَحْتَ قَدَمَيَّ مَوْضُوعٌ وَدِمَاءُ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعَةٌ وَأَوَّلُ دَمٍ أَضَعُهُ دِمَاؤُنَا دَمُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُثْمَانُ:‏‏‏‏ دَمُ ابْنُ رَبِيعَةَ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ سُلَيْمَانُ:‏‏‏‏ دَمُ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُ هَؤُلَاءِ:‏‏‏‏ كَانَ مُسْتَرْضَعًا فِي بَنِي سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ وَرِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُهُ رِبَانَا رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ، ‏‏‏‏‏‏اتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانَةِ اللَّهِ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ وَإِنَّ لَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ فَإِنْ فَعَلْنَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ:‏‏‏‏ كِتَابَ اللَّهِ وَأَنْتُمْ مَسْئُولُونَ عَنِّي، ‏‏‏‏‏‏فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّيْتَ وَنَصَحْتَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ بِأُصْبُعِهِ السَّبَّابَةِ يَرْفَعُهَا إِلَى السَّمَاءِ وَيَنْكُبُهَا إِلَى النَّاسِ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ اشْهَدْ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ اشْهَدْ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ اشْهَدْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَذَّنَ بِلَالٌ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى أَتَى الْمَوْقِفَ فَجَعَلَ بَطْنَ نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ إِلَى الصَّخَرَاتِ وَجَعَلَ حَبْلَ الْمُشَاةِ بَيْنَ يَدَيْهِ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَذَهَبَتِ الصُّفْرَةُ قَلِيلًا حِينَ غَابَ الْقُرْصُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ خَلْفَهُ فَدَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ شَنَقَ لِلْقَصْوَاءِ الزِّمَامَ حَتَّى إِنَّ رَأْسَهَا لَيُصِيبُ مَوْرِكَ رَحْلِهِ وَهُوَ يَقُولُ بِيَدِهِ الْيُمْنَى:‏‏‏‏ السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏كُلَّمَا أَتَى حَبْلًا مِنَ الْحِبَالِ أَرْخَى لَهَا قَلِيلًا حَتَّى تَصْعَدَ حَتَّى أَتَى الْمُزْدَلِفَةَ فَجَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِأَذَانٍ وَاحِدٍ وَإِقَامَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُثْمَانُ:‏‏‏‏ وَلَمْ يُسَبِّحْ بَيْنَهُمَا شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اتَّفَقُوا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى الْفَجْرَ حِينَ تَبَيَّنَ لَهُ الصُّبْحُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ سُلَيْمَانُ:‏‏‏‏ بِنِدَاءٍ وَإِقَامَةٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اتَّفَقُوا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى أَتَى الْمَشْعَرَ الْحَرَامَ فَرَقِيَ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُثْمَانُ وَ سُلَيْمَانُ:‏‏‏‏ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَحَمِدَ اللَّهَ وَكَبَّرَهُ وَهَلَّلَهُ، ‏‏‏‏‏‏زَادَ عُثْمَانُ:‏‏‏‏ وَوَحَّدَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى أَسْفَرَ جِدًّا ثُمَّ دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ وَكَانَ رَجُلًا حَسَنَ الشَّعْرِ أَبْيَضَ وَسِيمًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ الظُّعُنُ يَجْرِينَ فَطَفِقَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهِنَّ، ‏‏‏‏‏‏فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى وَجْهِ الْفَضْلِ وَصَرَفَ الْفَضْلُ وَجْهَهُ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ وَحَوَّلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ وَصَرَفَ الْفَضْلُ وَجْهَهُ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ يَنْظُرُ حَتَّى أَتَى مُحَسِّرًا فَحَرَّكَ قَلِيلًا ثُمَّ سَلَكَ الطَّرِيقَ الْوُسْطَى الَّذِي يُخْرِجُكَ إِلَى الْجَمْرَةِ الْكُبْرَى حَتَّى أَتَى الْجَمْرَةَ الَّتِي عِنْدَ الشَّجَرَةِ فَرَمَاهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ مِنْهَا بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ فَرَمَى مِنْ بَطْنِ الْوَادِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَنْحَرِ فَنَحَرَ بِيَدِهِ ثَلَاثًا وَسِتِّينَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَرَ عَلِيًّا فَنَحَرَ مَا غَبَرَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ مَا بَقِيَ وَأَشْرَكَهُ فِي هَدْيِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَمَرَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ فَجُعِلَتْ فِي قِدْرٍ فَطُبِخَتْ فَأَكَلَا مِنْ لَحْمِهَا وَشَرِبَا مِنْ مَرَقِهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ سُلَيْمَانُ:‏‏‏‏ ثُمَّ رَكِبَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْبَيْتِ فَصَلَّى بِمَكَّةَ الظُّهْرَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَتَى بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَهُمْ يَسْقُونَ عَلَى زَمْزَمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ انْزِعُوا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَوْلَا أَنْ يَغْلِبَكُمُ النَّاسُ عَلَى سِقَايَتِكُمْ لَنَزَعْتُ مَعَكُمْ فَنَاوَلُوهُ دَلْوًا فَشَرِبَ مِنْهُ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯০৬
مناسک حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج کا حال
جعفر بن محمد اپنے والد محمد باقر سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عرفات میں ظہر اور عصر ایک اذان سے پڑھی، ان کے درمیان کوئی نفل نہیں پڑھی، البتہ اقامت دو تھیں، اور مغرب و عشاء جمع (مزدلفہ) میں ایک اذان اور دو اق امتوں سے پڑھی، ان کے درمیان بھی کوئی نفل نہیں پڑھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو حاتم بن اسماعیل نے ایک لمبی حدیث میں مسنداً بیان کیا ہے اور حاتم بن اسماعیل کی طرح اسے محمد بن علی الجعفی نے جعفر سے، اور جعفر نے اپنے والد محمد سے، محمد نے جابر (رض) سے روایت کیا ہے البتہ اس میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ نے مغرب اور عشاء ایک اذان اور ایک اقامت سے پڑھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٩٣٢٠) (ضعیف) یہ حدیث معلق ہے، اس کی ابتدائی سند کو ابوداود نے ذکر نہیں کیا ہے، اور اس میں اقامة کا لفظ شاذ ہے، اقامتین محفوظ ہے، جیسا کہ گزرا (ملاحظہ ہو : ١٩٠٥- ١٩٠٦ ) وضاحت : ١ ؎ : اور یہ روایت سنداً و واقعۃً ضعیف ہے، صحیح یہی ہے کہ دونوں نماز ایک اذان اور دو اق امتوں سے ادا کیں۔
حدیث نمبر: 1906 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ. ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ الْمَعْنَى وَاحِدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ بِأَذَانٍ وَاحِدٍ بِعَرَفَةَ وَلَمْ يُسَبِّحْ بَيْنَهُمَا وَإِقَامَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِجَمْعٍ بِأَذَانٍ وَاحِدٍ وَإِقَامَتَيْنِ وَلَمْ يُسَبِّحْ بَيْنَهُمَا. قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ هَذَا الْحَدِيثُ أَسْنَدَهُ حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ فِي الْحَدِيثِ الطَّوِيلِ، ‏‏‏‏‏‏وَوَافَقَ حَاتِمَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ عَلَى إِسْنَادِهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَعْفَرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنَّهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعَتَمَةَ بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯০৭
مناسک حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج کا حال
جابر (رض) کہتے ہیں کہ پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں نے تو یہاں (منیٰ میں) نحر کیا ہے اور منیٰ پورا کا پورا نحر کرنے کی جگہ ہے ، اور عرفات میں وقوف کیا تو فرمایا : میں نے یہاں وقوف کیا ہے لیکن پورا میدان عرفات وقوف (ٹھہرنے) کی جگہ ہے ، اور مزدلفہ میں وقوف تو فرمایا : میں یہاں ٹھہرا ہوں لیکن پورا مزدلفہ وقوف (ٹھہرنے) کی جگہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الحج ١٩ (١٢١٨) ، سنن النسائی/ الحج ٥١ (٢٧٤١) ، ( تحفة الأشراف : ٢٥٩٦) (صحیح )
حدیث نمبر: 1907 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ قَدْ نَحَرْتُ هَا هُنَا وَ مِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌوَوَقَفَ بِعَرَفَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ قَدْ وَقَفْتُ هَا هُنَا وَ عَرَفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌوَوَقَفَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ قَدْ وَقَفْتُ هَا هُنَا وَ مُزْدَلِفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯০৮
مناسک حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج کا حال
اس سند سے بھی جعفر سے یہی حدیث مروی ہے اس میں اتنا اضافہ ہے : فانحروا في رحالکم کہ تم لوگ اپنی قیام گاہوں میں نحر کرو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ، (تحفة الأشراف : ٢٥٩٦) (صحیح )
حدیث نمبر: 1908 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَعْفَرٍ بِإِسْنَادِهِ، ‏‏‏‏‏‏زَادَ:‏‏‏‏ فَانْحَرُوا فِي رِحَالِكُمْ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯০৯
مناسک حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج کا حال
اس سند سے بھی جابر (رض) سے یہی حدیث مروی ہے البتہ اس میں یعقوب نے واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى پڑھنے کے بعد یہ ادراج کیا ہے کہ آپ نے ان دونوں رکعتوں میں توحید (یعنی قل هو الله أحد ) اور قل يا أيها الکافرون پڑھیں ، اور اس میں یہ ادراج بھی کیا کہ علی (رض) نے کوفہ میں کہا یعقوب کہتے ہیں کہ میرے والد نے فرمایا : جابر (رض) نے علی (رض) کا یہ قول ذکر نہیں کیا : (میں نبی اکرم ﷺ کے پاس فاطمہ (رض) کے خلاف غصہ دلانے چلا) ، اور یعقوب نے فاطمہ (رض) کا واقعہ ذکر کیا، میرے والد جعفر کا کہنا ہے کہ جابر (رض) نے اس حرف یعنی فذهبت محرشا کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (١٩٠٥) ، ( تحفة الأشراف : ٢٥٩٣) (صحیح )
حدیث نمبر: 1909 حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَعْفَرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ وَأَدْرَجَ فِي الْحَدِيثِ عِنْدَ قَوْلِهِ:‏‏‏‏ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَرَأَ فِيهِمَا بِالتَّوْحِيدِ و قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ فِيهِ:‏‏‏‏ قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِالْكُوفَةِ:‏‏‏‏ قَالَ أَبِي:‏‏‏‏ هَذَا الْحَرْفُ لَمْ يَذْكُرْهُ جَابِرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَذَهَبْتُ مُحَرِّشًا، ‏‏‏‏‏‏وَذَكَرَ قِصَّةَ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯১০
مناسک حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وقوف عرفہ کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ قریش اور ان کے ہم مذہب لوگ مزدلفہ میں ہی ٹھہرتے تھے اور لوگ انہیں حمس یعنی بہادر و شجاع کہتے تھے جب کہ سارے عرب کے لوگ عرفات میں ٹھہرتے تھے، تو جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو عرفات آنے اور وہاں ٹھہرنے پھر وہاں سے مزدلفہ لوٹنے کا حکم دیا اور یہی حکم اس آیت میں ہے : ‏‏‏‏ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس (سورۃ البقرہ : ١٩٩) تم لوگ وہاں سے لوٹو جہاں سے سبھی لوگ لوٹتے ہیں ۔ یعنی عرفات سے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٩١ (١٦٦٥) ، و تفسیر البقرة ٣٥ (٤٥٢٠) ، م /الحج ٢١ (١٢١٩) ، سنن النسائی/ الحج ٢٠٢ (٣٠١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧١٩٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٥٣ (٨٨٤) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٥٨ (٣٠١٨) (صحیح )
حدیث نمبر: 1910 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَتْ قُرَيْشٌ وَمَنْ دَانَ دِينَهَا يَقِفُونَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانُوا يُسَمَّوْنَ الْحُمُسَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ سَائِرُ الْعَرَبِ يَقِفُونَ بِعَرَفَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَلَمَّا جَاءَ الْإِسْلَامُ، ‏‏‏‏‏‏أَمَرَ اللَّهُ تَعَالَى نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْتِيَ عَرَفَاتٍ فَيَقِفَ بِهَا ثُمَّ يُفِيضُ مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ سورة البقرة آية 199.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯১১
مناسک حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ منی کی طرف روانگی
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یوم الترویہ (آٹھویں ذی الحجہ) کو ظہر اور یوم عرفہ (نویں ذی الحجہ) کو فجر منیٰ میں پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٥٠ (٨٨٠) ، ( تحفة الأشراف : ٦٤٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٥٥، ٢٩٦، ٢٩٧، ٣٠٣) ، دی/المناسک ٤٦ (١٩١٣) (صحیح )
حدیث نمبر: 1911 حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَحْوَصُ بْنُ جَوَّابٍ الضَّبِّيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْالْحَكَمِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مِقْسَمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ وَالْفَجْرَ يَوْمَ عَرَفَةَ بِمِنًى.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯১২
مناسک حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ منی کی طرف روانگی
عبدالعزیز بن رفیع کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے سوال کیا اور کہا : مجھے آپ وہ بتائیے جو رسول اللہ ﷺ سے آپ کو یاد ہو کہ آپ نے ظہر یوم الترویہ (آٹھویں ذی الحجہ) کو کہاں پڑھی ؟ انہوں نے کہا : منیٰ میں، میں نے عرض کیا تو لوٹنے کے دن آپ ﷺ نے عصر کہاں پڑھی ؟ فرمایا : ابطح میں، پھر کہا : تم وہی کرو جو تمہارے امراء کریں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : * تخريج : صحیح البخاری/الحج ٨٣ (١٦٥٣) ، ١٤٦ (١٧٦٣) ، صحیح مسلم/الحج ٥٨ (١٣٠٨) ، سنن الترمذی/الحج ١١٦ (٩٦٤) ، سنن النسائی/الحج ١٩٠ (٣٠٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٠٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٤٦ (١٩١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس طرح کے چھوٹے چھوٹے مسئلوں میں امیر کی مخالفت نہ کرو کیوں کہ ان کی مخالفت بسا اوقات فتنوں اور فساد کا موجب ہوتی ہے ، خصوصاً جب کہ امراء ظالم ہوں ورنہ رسول اللہ ﷺ کی اتباع تو ہر حال میں بہتر ہے۔
حدیث نمبر: 1912 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْأَزْرَقُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رَفِيعٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ أَخْبِرْنِي بِشَيْءٍ عَقَلْتَهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَيْنَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ بِمِنًى، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَأَيْنَ صَلَّى الْعَصْرَ يَوْمَ النَّفْرِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ بِالْأَبْطَحِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ افْعَلْ كَمَا يَفْعَلُ أُمَرَاؤُكَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯১৩
مناسک حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ منی کی طرف روانگی
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ یوم عرفہ (نویں ذی الحجہ) کو فجر پڑھ کر منیٰ سے چلے یہاں تک کہ عرفات آئے تو نمرہ میں اترے اور نمرہ عرفات میں امام کے اترنے کی جگہ ہے، جب ظہر کا وقت آنے کو ہوا تو رسول اللہ ﷺ (نمرہ سے) عین دوپہر میں چلے اور ظہر اور عصر کو جمع کیا، پھر لوگوں میں خطبہ دیا ١ ؎ پھر چلے اور عرفات میں موقف میں وقوف کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٨٤١٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٢٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس کے برخلاف جابر (رض) کی ایک حدیث میں نماز سے پہلے خطبہ کا ذکر ہے، دونوں حدیثوں میں تطبیق یہ دی جاتی ہے کہ ابن عمر (رض) کی اس حدیث کو عام نصیحت پر محمول کرلیا جائے، اور جابر (رض) کی روایت کو عرفہ کے مسنون خطبہ پر، یا یہ کہا جائے کہ ابن عمر (رض) والی روایت میں راوی کو وہم ہوگیا ہے، واللہ اعلم۔
حدیث نمبر: 1913 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي نَافِعٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ غَدَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مِنًى حِينَ صَلَّى الصُّبْحَ صَبِيحَةَ يَوْمِ عَرَفَةَ حَتَّى أَتَى عَرَفَةَ فَنَزَلَ بِنَمِرَةَ وَهِيَ مَنْزِلُ الْإِمَامِ الَّذِي يَنْزِلُ بِهِ بِعَرَفَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى إِذَا كَانَ عِنْدَ صَلَاةِ الظُّهْرِ رَاحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهَجِّرًا فَجَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ خَطَبَ النَّاسَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَاحَ فَوَقَفَ عَلَى الْمَوْقِفِ مِنْ عَرَفَةَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯১৪
مناسک حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ عرفہ میں نماز کے لئے روانگی کا وقت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ جب حجاج نے عبداللہ بن زبیر (رض) کو قتل کیا تو ابن عمر (رض) کے پاس (پوچھنے کے لیے آدمی) بھیجا کہ رسول اللہ ﷺ آج (یعنی عرفہ) کے دن (نماز اور خطبہ کے لیے) کس وقت نکلتے تھے ؟ انہوں نے جواب دیا جب یہ وقت آئے گا تو ہم خود چلیں گے، پھر جب ابن عمر (رض) نے چلنے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے کہا : ابھی سورج ڈھلا نہیں، انہوں نے پوچھا : کیا اب ڈھل گیا ؟ لوگوں نے کہا : ابھی نہیں ڈھلا، پھر جب لوگوں نے کہا کہ سورج ڈھل گیا تو وہ چلے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٥٤ (٣٠٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٧٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٨٧ (١٦٦٠) ، موطا امام مالک/الحج ٦٤ (١٩٥) ، مسند احمد (٢/٢٥) (حسن )
حدیث نمبر: 1914 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ حَسَّانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا أَنْ قَتَلَ الْحَجَّاجُ ابْنَ الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ عُمَرَ أَيَّةُ سَاعَةٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُوحُ فِي هَذَا الْيَوْمِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ إِذَا كَانَ ذَلِكَ رُحْنَا فَلَمَّا أَرَادَ ابْنُ عُمَرَ أَنْ يَرُوحَ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ لَمْ تَزِغْ الشَّمْسُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَزَاغَتْ ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ لَمْ تَزِغْ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ زَاغَتْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَلَمَّا قَالُوا:‏‏‏‏ قَدْ زَاغَتْ، ‏‏‏‏‏‏ارْتَحَلَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯১৫
مناسک حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ عرفات میں خطبہ دینا
بنی ضمرہ کے ایک آدمی اپنے والد یا اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو عرفات میں منبر پر (خطبہ دیتے) دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٧٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٩٤، ٣٦٩، ٤٣٠) (ضعیف) (اس کی سند میں ایک راوی رَجُلٌ مبہم ہے )
حدیث نمبر: 1915 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي زَائِدَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي ضَمْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ أَوْ عَمِّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ بِعَرَفَةَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯১৬
مناسک حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ عرفات میں خطبہ دینا
نبی ط بن شریط (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو عرفات میں سرخ اونٹ پر کھڑے ہو کر خطبہ دیتے دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ١٩٨ (٣٠١٠) ، ١٩٩ (٣٠١١) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٨٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٥٨(١٢٨٦) ، مسند احمد (٤/ ٣٠٥، ٣٠٦) (صحیح) (مؤلف کے علاوہ دوسروں کے یہاں سند میں عن رجل کا اضافہ نہیں ہے اور سلمہ کا اپنے والد سے سماع ثابت ہے اس لئے یہ حدیث صحیح ہے )
حدیث نمبر: 1916 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَلَمَةَ بْنِ نُبَيْطٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَجُلٍ مِنَ الْحَيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ نُبَيْطٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُرَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاقِفًا بِعَرَفَةَ عَلَى بَعِيرٍ أَحْمَرَ يَخْطُبُ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯১৭
مناسک حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ عرفات میں خطبہ دینا
خالد بن عداء بن ہوذہ (رض) کہتے ہیں عرفہ کے دن میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک اونٹ پر دونوں رکابوں کے درمیان کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ ١ ؎ دیتے دیکھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابن العلاء نے وکیع سے اسی طرح روایت کیا ہے جیسے ہناد نے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٩٨٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہی صحیح ہے اور باب کی پہلی حدیث جس میں میدان عرفات میں منبر پر خطبہ دینے کا تذکرہ ہے وہ سند کے اعتبار سے کمزور ہے، واضح رہے کہ اس وقت وہاں منبر تھا ہی نہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ منبر پر خطبہ دیتے۔
حدیث نمبر: 1917 حَدَّثَنَا هنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْمَجِيدِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي الْعَدَّاءُ بْنُ خَالِدِ بْنِ هَوْذَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ هَنَّادٌ:‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ الْمَجِيدِ أَبِي عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ الْعَدَّاءِ بْنِ هَوْذَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ النَّاسَ يَوْمَ عَرَفَةَ عَلَى بَعِيرٍ قَائِمٌ فِي الرِّكَابَيْنِ. قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ رَوَاهُ ابْنُ الْعَلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ وَكِيعٍ، ‏‏‏‏‏‏كَمَا قَالَ هَنَّادٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯১৮
مناسک حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ عرفات میں خطبہ دینا
اس سند سے بھی عداء بن خالد سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٩٨٤٩) (صحیح )
حدیث نمبر: 1918 حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَجِيدِ أَبُو عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْعَدَّاءِ، ‏‏‏‏‏‏بِمَعْنَاهُ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯১৯
مناسک حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ عرفات میں کھڑے ہونے کی جگہ
یزید بن شیبان کہتے ہیں ہمارے پاس ابن مربع انصاری آئے ہم عرفات میں تھے (وہ ایسی جگہ تھی جسے عمرو (عمرو بن عبداللہ) امام سے دور سمجھتے تھے) ، انہوں نے کہا : میں رسول اللہ ﷺ کا بھیجا ہوا قاصد ہوں، آپ کا فرمان ہے کہ اپنے مشاعر (نشانیوں کی جگہوں) پر ٹھہرو ١ ؎ اس لیے کہ تم اپنے والد ابراہیم کے وارث ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٥٣ (٨٨٣) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٥٥ (٣٠١١) سنن النسائی/ الحج ٢٠٢ (٣٠١٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٥٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مشاعر سے مراد مناسک حج کے مقامات اور قدیم مواقف ہیں، یعنی ان جگہوں پر تم بھی ٹھہرو کیونکہ ان جگہوں پر وقوف تمہارے باپ ابراہیم کے زمانہ ہی سے بطور وراثت چلا آ رہا ہے۔
حدیث نمبر: 1919 حَدَّثَنَا ابْنُ نُفَيْلٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرٍو يَعْنِي ابْنَ دِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ شَيْبَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَتَانَا ابْنُ مِرْبَعٍ الْأَنْصَارِيُّ وَنَحْنُ بِعَرَفَةَ فِي مَكَانٍ يُبَاعِدُهُ عَمْرُو عَنِ الْإِمَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَمَا إِنِّي رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْكُمْ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ لَكُمْ:‏‏‏‏ قِفُوا عَلَى مَشَاعِرِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّكُمْ عَلَى إِرْثٍ مِنْ إِرْثِ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৯২০
مناسک حج کا بیان
পরিচ্ছেদঃ عرفات سے واپسی کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عرفات سے لوٹے، آپ پر اطمینان اور سکینت طاری تھی، آپ ﷺ کے ردیف اسامہ (رض) تھے، آپ نے فرمایا : لوگو ! اطمینان و سکینت کو لازم پکڑو اس لیے کہ گھوڑوں اور اونٹوں کا دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے ۔ عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں : میں نے انہیں (گھوڑوں اور اونٹوں کو) ہاتھ اٹھائے دوڑتے نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ ﷺ جمع (مزدلفہ) آئے، (وہب کی روایت میں اتنا زیادہ ہے) : پھر آپ ﷺ نے اپنے ساتھ فضل بن عباس (رض) کو بٹھایا اور فرمایا : لوگو ! گھوڑوں اور اونٹوں کو دوڑانا نیکی نہیں ہے تم اطمینان اور سکینت کو لازم پکڑو ۔ عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں : پھر میں نے کسی اونٹ اور گھوڑے کو اپنے ہاتھ اٹھائے (دوڑتے) نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ ﷺ منیٰ آئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٦٤٧٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٢٢ (١٥٤٤) ، صحیح مسلم/الحج ٤٥ (١٢٨٢) ، سنن الترمذی/الحج ٧٨ (٩١٨) ، سنن النسائی/الحج ٢٠٤ (٣٠٢٢) ، مسند احمد (١/٢٣٥، ٢٥١، ٢٦٩، ٢٧٧، ٣٢٦، ٣٥٣، ٣٧١) (صحیح )
حدیث نمبر: 1920 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ. ح وحَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عُبَيْدَةُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الْأَعْمَشُ الْمَعْنَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحَكَمِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مِقْسَمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عَرَفَةَ وَعَلَيْهِ السَّكِينَةُ وَرَدِيفُهُ أُسَامَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ أَيُّهَا النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏عَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ الْبِرَّ لَيْسَ بِإِيجَافِ الْخَيْلِ وَالْإِبِلِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَمَا رَأَيْتُهَا رَافِعَةً يَدَيْهَا عَادِيَةً حَتَّى أَتَى جَمْعًا، ‏‏‏‏‏‏زَادَ وَهْبٌ:‏‏‏‏ ثُمَّ أَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ الْعَبَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ أَيُّهَا النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ الْبِرَّ لَيْسَ بِإِيجَافِ الْخَيْلِ وَالْإِبِلِ، ‏‏‏‏‏‏فَعَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَمَا رَأَيْتُهَا رَافِعَةً يَدَيْهَا حَتَّى أَتَى مِنًى.
tahqiq

তাহকীক: