আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
فضائل قرآن کا بیان۔ - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৫২ টি
হাদীস নং: ২৯১৫
فضائل قرآن کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ قرآن میں سے ایک حرف پڑھنے کا اجر
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قرآن قیامت کے دن پیش ہوگا پس کہے گا : اے میرے رب ! اسے (یعنی صاحب قرآن کو) جوڑا پہنا، تو اسے کرامت (عزت و شرافت) کا تاج پہنایا جائے گا۔ پھر وہ کہے گا : اے میرے رب ! اسے اور دے، تو اسے کرامت کا جوڑا پہنایا جائے گا۔ وہ پھر کہے گا : اے میرے رب اس سے راضی و خوش ہوجا، تو وہ اس سے راضی و خوش ہوجائے گا۔ اس سے کہا جائے گا پڑھتا جا اور چڑھتا جا، تیرے لیے ہر آیت کے ساتھ ایک نیکی کا اضافہ کیا جاتا رہے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٨١١) ، و مسند احمد (٢/٤٧١) ، وسنن الدارمی/فضائل القرآن (٣٣٤٩) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، التعليق الرغيب (2 / 207) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2915
حدیث نمبر: 2915 حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالصَّمَدِ بْنُ عَبْدِالْوَارِثِ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:يَجِيئُ الْقُرْآنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ حَلِّهِ، فَيُلْبَسُ تَاجَ الْكَرَامَةِ، ثُمَّ يَقُولُ: يَا رَبِّ زِدْهُ؛ فَيُلْبَسُ حُلَّةَ الْكَرَامَةِ، ثُمَّ يَقُولُ: يَا رَبِّ ارْضَ عَنْهُ، فَيَرْضَى عَنْهُ، فَيُقَالُ لَهُ: اقْرَأْ وَارْقَ، وَتُزَادُ بِكُلِّ آيَةٍ حَسَنَةً. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯১৬
فضائل قرآن کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت کے نیک اعمال کے اجر و ثواب میرے سامنے پیش کیے گئے یہاں تک کہ اس تنکے کا ثواب بھی پیش کیا گیا جسے آدمی مسجد سے نکال کر پھینک دیتا ہے۔ اور مجھ پر میری امت کے گناہ (بھی) پیش کیے گئے تو میں نے کوئی گناہ اس سے بڑھ کر نہیں دیکھا کہ کسی کو قرآن کی کوئی سورة یا کوئی آیت یاد ہو اور اس نے اسے بھلا دیا ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٣ - میں نے اس حدیث کا تذکرہ محمد بن اسماعیل بخاری سے کیا تو اس کو وہ پہچان نہ سکے اور انہوں نے اس حدیث کو غریب قرار دیا، ٤ - محمد بن اسماعیل بخاری نے یہ بھی کہا کہ میں نہیں جانتا کہ مطلب بن عبداللہ کی کسی صحابی رسول سے سماع ثابت ہے، سوائے مطلب کے اس قول کے کہ مجھ سے اس شخص نے روایت کی ہے جو نبی کریم ﷺ کی حاضرین میں موجود تھا، ٥ - میں نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن (دارمی) کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ہم مطلب کا سماع کسی صحابی رسول سے نہیں جانتے، ٦ - عبداللہ (دارمی یہ بھی) کہتے ہیں : علی بن مدینی اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ مطلب نے انس سے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ١٦ (٤٦١) (تحفة الأشراف : ١٥٩٢) (ضعیف) (سند میں مطلب اور ابن جریج دونوں مدلس راوی ہیں اور عنعنہ سے روایت ہے، نیز دونوں (مطلب اور انس) کے درمیان سند میں انقطاع بھی ہے، ملاحظہ ہو ضعیف أبی داود ١/١٦٤ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (720) ، الروض النضير (72) ، ضعيف أبي داود (71) // عندنا برقم (88 / 461) ، ضعيف الجامع الصغير (3700) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2916
حدیث نمبر: 2916 حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ الْحَكَمِ الْوَرَّاقُ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِالْمُطَّلِبِ بْن حَنْطَبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عُرِضَتْ عَلَيَّ أُجُورُ أُمَّتِي حَتَّى الْقَذَاةُ يُخْرِجُهَا الرَّجُلُ مِنَ الْمَسْجِدِ، وَعُرِضَتْ عَلَيَّ ذُنُوبُ أُمَّتِي فَلَمْ أَرَ ذَنْبًا أَعْظَمَ مِنْ سُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ أَوْ آيَةٍ أُوتِيهَا رَجُلٌ ثُمَّ نَسِيَهَا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، قَالَ: وَذَاكَرْتُ بِهِ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، فَلَمْ يَعْرِفْهُ وَاسْتَغْرَبَهُ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَلَا أَعْرِفُ لِلْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْطَبٍ سَمَاعًا مِنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا قَوْلَهُ: حَدَّثَنِي مَنْ شَهِدَ خُطْبَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، يَقُولُ: لَا نَعْرِفُ لِلْمُطَّلِبِ سَمَاعًا مِنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَأَنْكَرَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ أَنْ يَكُونَ الْمُطَّلِبِ سَمِعَ مِنْ أَنَسٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯১৭
فضائل قرآن کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ
عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ وہ ایک قصہ گو کے پاس سے گزرے جو قرآن پڑھ رہا تھا (پڑھ کر) وہ مانگنے لگا۔ تو انہوں نے «إنا لله وإنا إليه راجعون» پڑھا، پھر کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا ہے جو قرآن پڑھے تو اسے اللہ ہی سے مانگنا چاہیئے۔ کیونکہ عنقریب کچھ لوگ ایسے آئیں گے جو قرآن پڑھ پڑھ کر لوگوں سے مانگیں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، اس کی سند ویسی قوی نہیں ہے، ٢ - محمود بن غیلان کہتے ہیں : یہ خیثمہ بصریٰ ہیں جن سے جابر جعفی نے روایت کی ہے۔ یہ خیثمہ بن عبدالرحمٰن نہیں ہیں۔ اور خیثمہ شیخ بصریٰ ہیں ان کی کنیت ابونصر ہے اور انہوں نے انس بن مالک سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔ اور جابر جعفی نے بھی خیثمہ سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٧٩٥) ، وانظر مسند احمد (٤/٤٣٢، ٤٣٦، ٤٣٩) (حسن) (سند میں کلام ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو الصحیحة رقم ٢٥٧ ) قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (257) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2917
حدیث نمبر: 2917 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عنِ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّهُ مَرَّ عَلَى قَاصٍّ يَقْرَأُ، ثُمَّ سَأَلَ فَاسْتَرْجَعَ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَلْيَسْأَلِ اللَّهَ بِهِ فَإِنَّهُ سَيَجِيءُ أَقْوَامٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ يَسْأَلُونَ بِهِ النَّاسَ ، وَقَالَ مَحْمُودٌ: وَهَذَا خَيْثَمَةُ الْبَصْرِيُّ الَّذِي رَوَى عَنْهُ جَابِرٌ الْجُعْفِيُّ، وَلَيْسَ هُوَ خَيْثَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَخَيْثَمَةُ هَذَا شَيْخٌ بَصْرِيٌّ يُكْنَى أَبَا نَصْرٍ قَدْ رَوَى عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَحَادِيثَ، وَقَدْ رَوَى جَابِرٌ الْجُعْفِيُّ عَنْ خَيْثَمَةَ هَذَا أَيْضًا أَحَادِيثَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِذَاكَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯১৮
فضائل قرآن کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ
صہیب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے قرآن کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال جانا وہ قرآن پر ایمان نہیں رکھتا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کی سند زیادہ قوی نہیں ہے، وکیع کی روایت میں وکیع سے اختلاف کیا گیا ہے، ٢ - محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : ابوفروہ کہتے ہیں : یزید بن سنان رہاوی کی روایت لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ سوائے اس روایت کے جسے ان کے بیٹے محمد ان سے روایت کرتے ہیں، اس لیے کہ وہ ان سے مناکیر روایت کرتے ہیں، ٣ - محمد بن یزید بن سنان نے اپنے باپ سے یہ حدیث بھی روایت کی ہے اور اس کی سند میں اتنا اضافہ کیا ہے : «عن مجاهد عن سعيد بن المسيب عن صهيب» محمد بن یزید کی روایت کی کسی نے متابعت نہیں کی، وہ ضعیف ہیں، اور ابوالمبارک ایک مجہول شخص ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٩٧٢) (ضعیف) (سند میں ابوالمبارک مجہول راوی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (2203 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (4975) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2918
حدیث نمبر: 2918 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا أَبُو فَرْوَةَ يَزِيدُ بْنُ سِنَانٍ، عَنْ أَبِي الْمُبَارَكِ، عَنْ صُهَيْبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا آمَنَ بِالْقُرْآنِ مَنِ اسْتَحَلَّ مَحَارِمَهُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ، وَقَدْ خُولِفَ وَكِيعٌ فِي رِوَايَتِهِ، وَقَالَ مُحَمَّدٌ أَبُو فَرْوَةَ: يَزِيدُ بْنُ سِنَانٍ الرُّهَاوِيُّ لَيْسَ بِحَدِيثِهِ بَأْسٌ إِلَّا رِوَايَةَ ابْنِهِ مُحَمَّدٍ عَنْهُ فَإِنَّهُ يَرْوِي عَنْهُ مَنَاكِيرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَبِيهِ هَذَا الْحَدِيثَ فَزَادَ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ صُهَيْبٍ، وَلَا يُتَابَعُ مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ عَلَى رِوَايَتِهِ وَهُوَ ضَعِيفٌ، وَأَبُو الْمُبَارَكِ رَجُلٌ مَجْهُولٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯১৯
فضائل قرآن کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ
عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : بلند آواز سے قرآن پڑھنے والا ایسا ہے جیسا کھلے عام صدقہ دینے والا، اور آہستگی و خاموشی سے قرآن پڑھنے والا ایسا ہے جیسے چھپا کر صدقہ دینے والا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس حدیث کا معنی و مطلب یہ ہے کہ جو شخص آہستگی سے قرآن پڑھتا ہے وہ اس شخص سے افضل ہے جو بلند آواز سے قرآن پڑھتا ہے، اس لیے کہ اہل علم کے نزدیک چھپا کر صدقہ دینا برسر عام صدقہ دینے سے افضل ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ اہل علم کے نزدیک اس سے آدمی عجب (خود نمائی) سے محفوظ رہتا ہے۔ کیونکہ جو شخص چھپا کر عمل کرتا ہے اس کے عجب میں پڑنے کا اتنا خطرہ نہیں ہے جتنا اس کے کھلے عام عمل کرنے میں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣١٥ (١٣٣٣) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٢٤ (١٦٦٤) ، والزکاة ٦٨ (٢٥٦٠) (تحفة الأشراف : ٩٩٤٩) ، و مسند احمد (٤/١٥١، ١٥٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (2202 / التحقيق الثاني) ، صحيح أبي داود (1204) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2919
حدیث نمبر: 2919 حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: الْجَاهِرُ بِالْقُرْآنِ كَالْجَاهِرِ بِالصَّدَقَةِ، وَالْمُسِرُّ بِالْقُرْآنِ كَالْمُسِرِّ بِالصَّدَقَةِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ: أَنَّ الَّذِي يُسِرُّ بِقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ أَفْضَلُ مِنَ الَّذِي يَجْهَرُ بِقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ، لِأَنَّ صَدَقَةَ السِّرِّ أَفْضَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ صَدَقَةِ الْعَلَانِيَةِ، وَإِنَّمَا مَعْنَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لِكَيْ يَأْمَنَ الرَّجُلُ مِنَ الْعُجْبِ لِأَنَّ الَّذِي يُسِرُّ الْعَمَلَ، لَا يُخَافُ عَلَيْهِ الْعُجْبُ مَا يُخَافُ عَلَيْهِ مِنْ عَلَانِيَتِهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯২০
فضائل قرآن کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب تک سورة بنی اسرائیل اور سورة الزمر پڑھ نہ لیتے بستر پر سوتے نہ تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ابولبابہ ایک بصریٰ شیخ ہیں، حماد بن زید نے ان سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں، کہا جاتا ہے کہ ان کا نام مروان ہے، یہ بات مجھے محمد بن اسماعیل بخاری نے کتاب التاریخ میں بتائی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٢٠٥ (٧١٢) ، ویأتي عند المؤلف في الدعوات (برقم ٣٤٠٥) (تحفة الأشراف : ١٧٦٠١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (641) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2920
حدیث نمبر: 2920 حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي لُبَابَةَ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَنَامُ عَلَى فِرَاشِهِ حَتَّى يَقْرَأَ بَنِي إِسْرَائِيلَ، وَالزُّمَرَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو لُبَابَةَ شَيْخٌ بَصْرِيٌّ، قَدْ رَوَى عَنْهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ غَيْرَ حَدِيثٍ وَيُقَالُ اسْمُهُ مَرْوَانُ، أَخْبَرَنِي بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل فِي كِتَابِ التَّارِيخِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯২১
فضائل قرآن کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ
عرباض بن ساریہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سونے سے پہلے مسبحات پڑھتے تھے ١ ؎ آپ فرماتے تھے : ان میں ایک آیت ایسی ہے جو ہزار آیتوں سے بہتر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٠٧ (٥٠٥٧) (تحفة الأشراف : ٩٨٨٨) (ضعیف) (سند میں بقیة بن الولید مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز عبد اللہ بن أبی بلال الخزاعی الشامی مقبول عندالمتابعہ ہیں، اور ان کا کوئی متابع نہیں اس لیے ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : مسبحات وہ سورتیں ہیں جو سبحان اللہ ، سبح اور یسبح سے شروع ہوتی ہیں ، وہ یہ ہیں : بنی اسرائیل ، الحدید ، الحشر ، الجمعہ ، الصف ، التغابن ، اور الاعلیٰ ۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2921
حدیث نمبر: 2921 حَدَّثَنَا عَليُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بِلَالٍ، عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ يَقْرَأُ الْمُسَبِّحَاتِ قَبْلَ أَنْ يَرْقُدَ، وَيَقُولُ: إِنَّ فِيهِنَّ آيَةً خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ آيَةٍ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯২২
فضائل قرآن کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ
معقل بن یسار (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص صبح کے وقت «أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم» تین بار پڑھے، اور تین بار سورة الحشر کی آخری تین آیتیں پڑھے، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے مغفرت مانگنے کے لیے ستر ہزار فرشتے لگا دیتا ہے جو شام تک یہی کام کرتے ہیں۔ اگر وہ ایسے دن میں مرجاتا ہے تو شہید ہو کر مرتا ہے، اور جو شخص ان کلمات کو شام کے وقت کہے گا وہ بھی اسی درجہ میں ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٤٧٨) (ضعیف جدا) (سند میں موجود نافع بن ابی نافع دراصل نفیع ابوداود الاعمی ہے، جو متروک ہے، بلکہ ابن معین نے تکذیب کی ہے، ملاحظہ ہو تہذیب التہذیب ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (342) ، التعليق الرغيب (2 / 225) // ضعيف الجامع الصغير (5732) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2922
حدیث نمبر: 2922 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ طَهْمَانَ أَبُو الْعَلَاءِ الْخَفَّافُ، حَدَّثَنِي نَافِعُ بْنُ أَبِي نَافِعٍ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ قَالَ حِينَ يُصْبِحُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ، وَقَرَأَ ثَلَاثَ آيَاتٍ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْحَشْرِ، وَكَّلَ اللَّهُ بِهِ سَبْعِينَ أَلْفَ مَلَكٍ يُصَلُّونَ عَلَيْهِ حَتَّى يُمْسِيَ، وَإِنْ مَاتَ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ مَاتَ شَهِيدًا، وَمَنْ قَالَهَا حِينَ يُمْسِي، كَانَ بِتِلْكَ الْمَنْزِلَةِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯২৩
فضائل قرآن کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم ﷺ کی قرأت کے متعلق
یعلیٰ بن مملک سے روایت ہے، انہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے نبی اکرم ﷺ کی نماز اور آپ کی قرأت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا : تمہارا اور آپ کی نماز کا کیا جوڑ ؟ آپ نماز پڑھتے تھے پھر اتنی دیر سوتے تھے جتنی دیر نماز پڑھے ہوتے، پھر نماز پڑھتے تھے اسی قدر جتنی دیر سوئے ہوئے ہوتے، پھر اتنی دیر سوتے تھے جتنی دیر نماز پڑھے ہوتے۔ یہاں تک کہ آپ صبح کرتے، پھر انہوں نے آپ کے قرأت کی کیفیت بیان کی اور انہوں نے اس کیفیت کو واضح طور پر ایک ایک حرف حرف کر کے بیان کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اسے ہم صرف لیث بن سعد کی روایت سے جانتے ہیں جسے انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے اور ابن ابی ملیکہ نے یعلیٰ بن مملک کے واسطہ سے ام سلمہ سے روایت کی، ٣ - ابن جریج نے یہ حدیث ابن ابی ملیکہ سے اور ابن ابی ملیکہ نے ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی قرأت کا ہر حرف جدا جدا ہوتا تھا، ٤ - لیث کی حدیث (ابن جریج کی حدیث سے) زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصلاة ٣٥٥ (١٤٦٦) (تحفة الأشراف : ١٨٢٢٦) (ضعیف) (سند میں یعلی بن مملک ضعیف ہیں، مگر شواہد ومتابعات کی بنا پر یہ حدیث ثابت ہے، دیکھیے آگے حدیث رقم ٢٩٢٧ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ضعيف أبي داود (260) // (316 / 1466) //، المشکاة (1210 / التحقيق الثاني) ، // ضعيف سنن النسائي برقم (46 / 1022، 100 / 1629) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2923
حدیث نمبر: 2923 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مَمْلَكٍ، أَنَّهُ سَأَلَ أُمَّ سَلَمَةَزَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قِرَاءَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَلَاتِهِ، فَقَالَتْ: مَا لَكُمْ وَصَلَاتَهُ، كَانَ يُصَلِّي ثُمَّ يَنَامُ قَدْرَ مَا صَلَّى، ثُمَّ يُصَلِّي قَدْرَ مَا نَامَ، ثُمَّ يَنَامُ قَدْرَ مَا صَلَّى حَتَّى يُصْبِحَ، ثُمَّ نَعَتَتْ قِرَاءَتَهُ فَإِذَا هِيَ تَنْعَتُ قِرَاءَةً مُفَسَّرَةً حَرْفًا حَرْفًا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ لَيْثِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مَمْلَكٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، وَقَدْ رَوَى ابْنُ جُرَيْجٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُقَطِّعُ قِرَاءَتَهُ ، وَحَدِيثُ لَيْثٍ أَصَحُّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯২৪
فضائل قرآن کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم ﷺ کی قرأت کے متعلق
عبداللہ بن ابی قیس بصریٰ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے رسول اللہ ﷺ کی وتر کے بارے میں پوچھا کہ آپ وتر رات کے شروع حصے میں پڑھتے تھے یا آخری حصے میں ؟ انہوں نے کہا : آپ دونوں ہی طرح سے کرتے تھے۔ کبھی تو آپ شروع رات میں وتر پڑھ لیتے تھے اور کبھی آخر رات میں وتر پڑھتے تھے۔ میں نے کہا : الحمدللہ ! تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہیں جس نے دین کے معاملے میں وسعت و کشادگی رکھی، پھر میں نے پوچھا : آپ ﷺ کی قرأت کیسی ہوتی تھی ؟ کیا آپ دھیرے پڑھتے تھے یا بلند آواز سے ؟ کہا : آپ ﷺ یہ سب کرتے تھے۔ کبھی تو دھیرے پڑھتے تھے اور کبھی آپ زور سے میں نے کہا : الحمدللہ، تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے دین میں وسعت و کشادگی رکھی۔ پھر میں نے کہا : آپ جب جنبی ہوجاتے تھے تو کیا کرتے تھے ؟ کیا سونے سے پہلے غسل کرلیتے تھے یا غسل کیے بغیر سو جاتے تھے ؟ کہا : آپ ﷺ یہ تمام ہی کرتے تھے، کبھی تو آپ غسل کرلیتے تھے پھر سوتے، اور کبھی وضو کر کے سو جاتے، میں نے کہا : اللہ کا شکر ہے کہ اس نے دینی کام میں وسعت و کشادگی رکھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٤٤٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (222 - 1291) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2924
حدیث نمبر: 2924 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ مُعَاوِيةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَيْسٍ هُوَ رَجُلٌ بَصْرِيٌّ، قَالَ: سَأَلْتُعَائِشَةَ عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ كَانَ يُوتِرُ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ أَوْ مِنْ آخِرِهِ ؟ فَقَالَتْ: كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَصْنَعُ، رُبَّمَا أَوْتَرَ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ وَرُبَّمَا أَوْتَرَ مِنْ آخِرِهِ، فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً، فَقُلْتُ: كَيْفَ كَانَتْ قِرَاءَتُهُ ؟ أَكَانَ يُسِرُّ بِالْقِرَاءَةِ أَمْ يَجْهَرُ ؟ قَالَتْ: كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَفْعَلُ، قَدْ كَانَ رُبَّمَا أَسَرَّ وَرُبَّمَا جَهَرَ، قَالَ: فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً، قُلْتُ: فَكَيْفَ كَانَ يَصْنَعُ فِي الْجَنَابَةِ ؟ أَكَانَ يَغْتَسِلُ قَبْلَ أَنْ يَنَامَ أَوْ يَنَامُ قَبْلَ أَنْ يَغْتَسِلَ ؟ قَالَتْ: كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَفْعَلُ، فَرُبَّمَا اغْتَسَلَ فَنَامَ وَرُبَّمَا تَوَضَّأَ فَنَامَ، قُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯২৫
فضائل قرآن کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ نبی اکرم ﷺ کی قرأت کے متعلق
جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ «موقف» (عرفات) میں اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہتے تھے : ہے کوئی جو مجھے اپنی قوم میں لے چلے، کیونکہ قریش نے مجھے اپنے رب کے کلام (قرآن) کی تبلیغ سے روک دیا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ السنة ٢٢ (٤٧٣٤) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٣ (٢٠١) (تحفة الأشراف : ٢٢٤١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (201) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2925
حدیث نمبر: 2925 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْرِضُ نَفْسَهُ بِالْمَوْقِفِ، فَقَالَ: أَلَا رَجُلٌ يَحْمِلْنِي إِلَى قَوْمِهِ فَإِنَّ قُرَيْشًا قَدْ مَنَعُونِي أَنْ أُبَلِّغَ كَلَامَ رَبِّي ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯২৬
فضائل قرآن کا بیان۔
পরিচ্ছেদঃ
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ عزوجل فرماتا ہے : جس کو قرآن نے میری یاد نے مجھ سے سوال کرنے سے مشغول رکھا۔ میں اسے اس سے زیادہ دوں گا جتنا میں مانگنے والوں کو دیتا ہوں، اللہ کے کلام کی فضیلت دوسرے سارے کلام پر ایسی ہے جیسے اللہ کی فضیلت اس کی اپنی ساری مخلوقات پر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٢١٦) (ضعیف) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (2136) ، الضعيفة (1335) // ضعيف الجامع الصغير (6435) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2926
حدیث نمبر: 2926 حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا شِهَابُ بْنُ عَبَّادٍ الْعَبْدِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: مَنْ شَغَلَهُ الْقُرْآنُ وَذِكْرِي عَنْ مَسْأَلَتِي أَعْطَيْتُهُ أَفْضَلَ مَا أُعْطِي السَّائِلِينَ، وَفَضْلُ كَلَامِ اللَّهِ عَلَى سَائِرِ الْكَلَامِ كَفَضْلِ اللَّهِ عَلَى خَلْقِهِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
তাহকীক: