আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
علم کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৪৩ টি
হাদীস নং: ২৬৬৫
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کتابت علم کی کراہت کے متعلق
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے (ابتداء اسلام میں) نبی اکرم ﷺ سے علم (حدیث) لکھ لینے کی اجازت طلب کی تو آپ نے ہمیں لکھنے کی اجازت نہ دی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی زید بن اسلم کے واسطہ سے آئی ہے، اور اسے ہمام نے زید بن اسلم سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزہد ١٦ (٣٠٠٤) (بلفظ ” لاتکتبوا عني، ومن کتب عني غیر القرآن فلیمحہ “ )(تحفة الأشراف : ٤١٦٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس کی وجہ یہ ہے کہ شروع اسلام میں یہ حکم تھا : «لا تکتبوا عني ومن کتب عني غير القرآن فليمحه وحدثوا عني ولا حرج» (صحیح مسلم) یعنی قرآن کے علاوہ میری کوئی بات نہ لکھو ، اور اگر کسی نے قرآن کے علاوہ کچھ لکھ لیا ہے تو اسے مٹا دے ، البتہ میری حدیثوں کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، پھر بعد میں آپ ﷺ نے اپنے فرمان : «بلغوا عني ولو آية» کے ذریعہ اس کی اجازت بھی دے دی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2665
حدیث نمبر: 2665 حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: اسْتَأْذَنَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْكِتَابَةِ فَلَمْ يَأْذَنْ لَنَا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ أَيْضًا عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، رَوَاهُ هَمَّامٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৬৬
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کتابت علم کی اجازت کے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک انصاری شخص نبی اکرم ﷺ کی مجلس میں بیٹھا کرتا تھا۔ وہ آپ کی حدیثیں سنتا اور یہ حدیثیں اسے بہت پسند آتی تھیں، لیکن وہ انہیں یاد نہیں رکھ پاتا تھا تو اس نے اپنے یاد نہ رکھ پانے کی رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی۔ اس نے کہا : اللہ کے رسول ! میں آپ کی حدیثیں سنتا ہوں اور وہ مجھے بہت اچھی لگتی ہیں (مگر) میں انہیں یاد نہیں رکھ پاتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے داہنے ہاتھ کا سہارا لو (اور یہ کہتے ہوئے) آپ نے ہاتھ سے لکھ لینے کا اشارہ فرمایا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کی سند قوی و مستحکم نہیں ہے، ٢ - میں نے محمد بن اسماعیل کو کہتے ہوئے سنا : خلیل بن مرہ منکر الحدیث ہے، ٣ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤٨١٤) (ضعیف) (سند میں خلیل بن مرہ ضعیف راوی ہیں، اور یحییٰ بن ابی صالح مجہول راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (2761) // ضعيف الجامع الصغير (813) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2666
حدیث نمبر: 2666 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ الْخَلِيلِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ يَجْلِسُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَسْمَعُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَدِيثَ، فَيُعْجِبُهُ وَلَا يَحْفَظُهُ، فَشَكَا ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَسْمَعُ مِنْكَ الْحَدِيثَ فَيُعْجِبُنِي وَلَا أَحْفَظُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اسْتَعِنْ بِيَمِينِكَ وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ لِلْخَطِّ ، وفي الباب عن عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُهُ لَيْسَ بِذَلِكَ الْقَائِمِ، وَسَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل يَقُولُ: الْخَلِيلُ بْنُ مُرَّةَ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৬৭
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کتابت علم کی اجازت کے متعلق
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے خطبہ دیا اور دوران خطبہ آپ نے کوئی قصہ (کوئی واقعہ) بیان کیا تو ابو شاہ نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے لیے لکھوا دیجئیے (یعنی کسی سے لکھا دیجئیے) تو رسول اللہ ﷺ نے (صحابہ سے) کہا ابو شاہ کے لیے لکھ دو ۔ حدیث میں پورا واقعہ مذکور ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - شیبان نے یحییٰ بن ابی کثیر سے اسی جیسی روایت بیان کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر تخریج حدیث رقم ١٤٠٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حدیث نہ لکھنے کا حکم بعد میں منسوخ ہوگیا گویا یہ حدیث اللہ کے رسول کی احادیث لکھ لینے کے جواز پر صریح دلیل ہے۔ اسی طرح درج ذیل حدیث اور احادیث کی کتب میں درج بیسویں احادیث مبارکہ منکرین حدیث پر روز روشن کی طرح اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ کتابت حدیث کا مبارک عمل نبی ختم الرسل محمد رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں ہی ہوگیا تھا اور یہ کہ ہماری تحقیق کے مطابق ساداتنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ، وائل بن حجر ، سعد بن عبادہ ، عبداللہ بن ابی اوفی ، عبداللہ بن عباس ، انس بن مالک اور رافع بن خدیج (رض) سمیت بیس صحابہ کرام (رض) اجمعین ایسے اصحاب واجبات تھے کہ جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارک کو لکھا ، ان اصحاب کی لکھی ہوئی احادیث کی تعداد کئی ہزار تک پہنچتی ہے ، اور پھر ابوہریرہ (رض) جیسے جو اصحاب لکھ نہیں سکتے تھے اپنے ہاتھوں بلکہ انہوں نے احادیث مبارکہ کو لفظ بلفظ یاد رکھا اور پھر یہی احادیث اپنے شاگردوں کو لکھوا دیں ان کی تعداد مزید کئی ہزار تک پہنچ جاتی ہے ، اور ہمارے اندازے کے مطابق کتب احادیث میں موجود تمام احادیث کا ایک بڑا حصہ عہد صحابہ میں لکھا جا چکا تھا ، (مزید تفصیل کے لیے ہماری کتاب مقدمۃ الحدیث کی پہلی جلد میں پہلے باب اور ڈاکٹر محمد حمیداللہ خاں کی «الوثائق السیاسیة فی عہد…» کا مطالعہ کریں ، ابویحییٰ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2667
حدیث نمبر: 2667 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ فَذَكَرَ الْقِصَّةَ فِي الْحَدِيثِ، قَالَ أَبُو شَاهٍ: اكْتُبُوا لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اكْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ ، وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ مِثْلَ هَذَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৬৮
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کتابت علم کی اجازت کے متعلق
ہمام بن منبہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ (رض) کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سوائے عبداللہ بن عمرو (رض) کے رسول اللہ ﷺ سے حدیث بیان کرنے والا مجھ سے زیادہ کوئی نہیں ہے اور میرے اور عبداللہ بن عمرو (رض) کے درمیان یہ فرق تھا کہ وہ (احادیث) لکھ لیتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اور روایت میں «وهب بن منبه، عن أخيه» جو آیا، تو «أخيه» سے مراد ہمام بن منبہ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٣٩ (١١٣) (تحفة الأشراف : ١٤٨٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ابوہریرہ بن عبدالرحمٰن بن صخر (رض) کو لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش نہیں آئی تھی کہ آپ کے لیے نبی اکرم ﷺ کی آپ کے علم میں خیر و برکت کی دعا تھی جس سے آپ (رض) کا سینہ بذات خود حفظ و تحفیظ کا دفتر بنا گیا تھا ، امام ذہبی (رح) نے سیرأعلام النبلاء (الجزء الثانی ص ٥٩٤ اور ٥٩٥ ) میں ابوہریرہ (رض) کے حالاتِ زندگی لکھتے ہوئے درج کیا ہے : «كان حفظ أبي هريرة رضي اللہ عنه الخارق من معجزات النبوة ...» ابوہریرہ (رض) کا حافظ … احادیث کے بہت بڑے ذخیرہ اور قرآن کو یاد کرلینے کا ملکہ … نبوت کے معجزات میں سے خرق عادت ایک معجزہ تھا ، اور پھر اس عبارت کو بطور عنوان اختیار کر کے امام ذہبی (رح) نے ابونعیم کی «الحلیة» میں درج احادیث کو نقل کیا ہے ، اور اس پر حکم لگاتے ہوئے لکھا ہے «رجالہ ثقات» ان احادیث میں سے ایک یوں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوہریرہ سے پوچھا : ابوہریرہ ! غنیمتوں کے اموال میں سے تم مجھ سے کچھ نہیں مانگتے جن میں سے تیرے ساتھی مانگتے رہتے ہیں ؟ میں نے عرض کیا : «أسألك أن تعلمني مما علمک الله» میں تو آپ ﷺ سے صرف اس بات کا سوال کرتا ہوں کہ جو کچھ اللہ نے آپ ﷺ کو قرآن و سنت والا علم سکھایا ہے اس میں سے آپ مجھے (جتنا زیادہ ممکن ہو) سکھا دیجئیے ، تو میری اس درخواست پر نبی اکرم ﷺ نے میرے اوپر والی سفید اور کالی دھار یوں والی چادر کو مجھ سے اتار لیا اور اسے ہمارے دونوں کے درمیان پھیلا دیا ، اس قدر خوب تن کر اس چادر کو پھیلایا گویا میں اس پر چلنے والی چیونٹی کو بھی صاف دیکھ رہا تھا ، پس آپ ﷺ نے مجھ سے احادیث بیان کرنا شروع فرما دیں حتیٰ کہ جب میں نے آپ ﷺ کی پوری حدیث مبارکہ حاصل کرلی تو آپ نے فرمایا : «إجمحها فصرها إليك» اس چادر کو اکٹھی کر کے اپنی طرف پلٹا لو ، (یعنی اپنے اوپر اوڑھ لو۔ ) چناچہ میں نے ایسا کرلیا اور پھر تو میں حافظے کے اعتبار سے ایسا ہوگیا کہ نبی اکرم ﷺ جو بھی اپنی حدیث مبارک مجھ سے بیان فرماتے اس سے ایک حرف بھی مجھ سے ساقط نہیں ہوتا تھا ، ابوہریرہ (رض) کے الفاظ «فاصبحت لا أسقط حرفا حدثنی» (دیکھئیے : الحلۃ : ١ /٣٨١) بالکل اسی معنی کی احادیث صحیح البخاری / کتاب البیوع اور کتاب الحرث والمزرعۃ حدیث ٢٣٥٠ اور صحیح مسلم / کتاب فضائل الصحابۃ ، باب من فضائل ابی ہریرۃ (رض) الدوسی حدیث ٢٤٩٢ میں بھی ہیں۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے «مجموعة الوقائق السیاسیة للعہدالنبوی والخلافة الراشدة» میں ثابت کیا ہے کہ جناب ہمام بن منبہ (رح) کے ہاتھ کا مخطوطہٰ احادیث آج بھی دنیا کی ایک معروف لائبریری میں موجود ہے ، اور پھر اس مخطوطہٰ کو حیدرآباد دکن سے شائع بھی کیا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2668
حدیث نمبر: 2668 حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَخِيهِ وَهُوَ هَمَّامُ بْنُ مُنَبِّهٍ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنِّي إِلَّا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ وَكُنْتُ لَا أَكْتُبُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَوَهْبُ بْنُ مُنَبِّهٍ عَنْ أَخِيهِ هُوَ هَمَّامُ بْنُ مُنَبِّهٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৬৯
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بنی اسرائیل سے روایت کرنے کے متعلق
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری طرف سے لوگوں کو (احکام الٰہی) پہنچا دو اگرچہ ایک آیت ہی ہو، اور بنی اسرائیل سے بیان کرو، ان سے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں، اور جس نے جان بوجھ کر میری طرف کسی جھوٹ کی نسبت کی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٥٠ (٣٤٦١) (تحفة الأشراف : ٨٩٦٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے علم کی حد تک ہر شخص اس بات کا مکلف ہے کہ قرآن و حدیث کا جو بھی علم اسے حاصل ہو اسے لوگوں تک پہنچائے ، یہاں تک کہ اگر کسی ایک حکم الٰہی سے ہی آگاہ ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو بھی اس سے آگاہ کرے ، بنی اسرائیل سے متعلق صرف وہ باتیں بیان کی جائیں جو آپ ﷺ سے صحیح سندوں سے ثابت ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (582) ، تخريج العلم لأبي خيثمة (119 / 45) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2669 اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، اور یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (582) ، تخريج العلم لأبي خيثمة (119 / 45) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2669
حدیث نمبر: 2669 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنِ ابْنِ ثَوْبَانَ هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي كَبْشَةَ السَّلُولِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً، وَحَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ، وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي كَبْشَةَ السَّلُولِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৭০
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ نیکی کا راستہ بتانے والا اس پر عمل کرنے والے کی طرح ہے
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس سواری مانگنے آیا، تو آپ کے پاس اسے کوئی سواری نہ ملی جو اسے منزل مقصود تک پہنچا دیتی۔ آپ نے اسے ایک دوسرے شخص کے پاس بھیج دیا، اس نے اسے سواری فراہم کردی۔ پھر اس نے آ کر آپ کو اس کی اطلاع دی تو آپ نے فرمایا : بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے والا (ثواب میں) بھلائی کرنے والے ہی کی طرح ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے یعنی انس (رض) کی روایت سے جسے وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابومسعود بدری اور بریدہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٠٢) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الصحيحة (1160) ، التعليق الرغيب (1 / 72) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2670
حدیث نمبر: 2670 حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ بِشْرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ يَسْتَحْمِلُهُ فَلَمْ يَجِدْ عِنْدَهُ مَا يَتَحَمَّلُهُ، فَدَلَّهُ عَلَى آخَرَ فَحَمَلَهُ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: إِنَّ الدَّالَّ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِهِ ، وفي الباب عن أَبِي مَسْعُودٍ الْبَدْرِيِّ، وَبُرَيْدَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৭১
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ نیکی کا راستہ بتانے والا اس پر عمل کرنے والے کی طرح ہے
ابومسعود بدری (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس سواری مانگنے آیا، اور کہا : میں بےسواری کے ہوگیا ہوں تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے کہا : تم فلاں شخص کے پاس جاؤ، چناچہ وہ اس شخص کے پاس گیا اور اس نے اسے سواری دے دی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے بھلائی کا راستہ دکھایا تو اسے اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا کہ اس کے کرنے والے کو ملتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور ابومسعود بدری کا نام عقبہ بن عمرو ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٣٨ (١٨٩٣) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٢٤ (٥١٢٩) (تحفة الأشراف : ٩٩٨٦) ، و مسند احمد (٤/١٢٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2671
حدیث نمبر: 2671 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا عَمْرٍو الشَّيْبَانِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْبَدْرِيِّ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَحْمِلُهُ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ أُبْدِعَ بِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ائْتِ فُلَانًا ، فَأَتَاهُ فَحَمَلَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ أَوْ قَالَ: عَامِلِهِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو عَمْرٍو الشَّيْبَانِيُّ اسْمُهُ: سَعْدُ بْنُ إِيَاسٍ، وَأَبُو مَسْعُودٍ الْبَدْرِيُّ اسْمُهُ: عُقْبَةُ بْنُ عَمْرٍو.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৭২
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ نیکی کا راستہ بتانے والا اس پر عمل کرنے والے کی طرح ہے
ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : شفاعت (سفارش) کرو تاکہ اجر پاؤ، اللہ اپنے نبی کی زبان سے نکلی ہوئی جس بات (جس سفارش) کو بھی چاہتا ہے پورا کردیتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٢١ (١٤٣٢) ، والأدب ٣٦ (٦٠٢٧) ، و ٣٧ (٦٠٢٨) ، والتوحید ٣١ (٧٤٧٦) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٤٤ (٢٦٢٧) ، سنن ابی داود/ الأدب ١٢٦ (٥١٣١) ، سنن النسائی/الزکاة ٦٥ (٢٥٥٧) (تحفة الأشراف : ٩٠٣٦) ، و مسند احمد (٤/٤٠٠، ٤٠٩، ٤١٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اگر کوئی رسول اللہ ﷺ سے اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے چیز مانگتا ہے اور تم سمجھتے ہو کہ حقیقت میں یہ شخص ضرورت مند ہے تو تم اس کے حق میں سفارش کے طور پر دو کلمہ خیر کہہ دو ، تو تمہیں بھی اس کلمہ خیر کہہ دینے کا ثواب ملے گا ، لیکن یہ بات یاد رہے کہ اس میں جس سفارش کی ترغیب دی گئی ہے ، وہ ایسے امور کے لیے ہے جو حلال اور مباح ہیں ، حرام یا شرعی حد کو ساقط کرنے کے لیے سفارش کی اجازت نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1446) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2672
حدیث نمبر: 2672 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: اشْفَعُوا وَلْتُؤْجَرُوا وَلْيَقْضِ اللَّهُ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ مَا شَاءَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَبُرَيْدٌ يُكْنَى: أَبَا بُرْدَةَ أَيْضًا هُوَ ابْنُ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ وَهُوَ كُوفِيٌّ ثِقَةٌ فِي الْحَدِيثِ رَوَى عَنْهُ شُعْبَةُ، وَالثَّوْرِيُّ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৭৩
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ نیکی کا راستہ بتانے والا اس پر عمل کرنے والے کی طرح ہے
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ظلم سے جو بھی خون ہوتا ہے اس خون کے گناہ کا ایک حصہ آدم کے (پہلے) بیٹے پر جاتا ہے، کیونکہ اسی نے سب سے پہلے خون کرنے کی سبیل نکالی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ١ (٣٣٣٥) ، والدیات ٢ (٦٨٦٧) ، والاعتصام ١٥ (٧٣٢١) ، صحیح مسلم/القسامة (الحدود) ٧ (١٦٧٧) ، سنن النسائی/المحاربة ١ (٣٩٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ١٦ (٢٦) (تحفة الأشراف : ٩٥٦٨) ، و مسند احمد (١/٣٨٣، ٤٣٠، ٤٣٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ خلاف شریعت اور برے کاموں کو پہلے پہل کرنا جس کی بعد میں لوگ تقلید کریں کتنا بڑا جرم ہے ، قیامت تک اس برے کام کے کرنے کا گناہ اسے بھی ملتا رہے گا ، اس لیے امن و سلامتی کی زندگی گزار نے کے لیے ضروری ہے کہ کتاب و سنت کی اتباع و پیروی کریں اور بدعات و خرافات سے اجتناب کریں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2616) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2673 اس سند سے بھی ابن مسعود سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2616) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2673
حدیث نمبر: 2673 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْمَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ نَفْسٍ تُقْتَلُ ظُلْمًا، إِلَّا كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ كِفْلٌ مِنْ دَمِهَا، وَذَلِكَ لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ أَسَنَّ الْقَتْلَ ، وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: سَنَّ الْقَتْلَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ، قَالَ: سَنَّ الْقَتْلَ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৭৪
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس شخص کے بارے میں جس نے ہدایت کی طرف بلایا اور لوگوں نے اس کی تابعداری کی
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے لوگوں کو ہدایت کی طرف بلایا تو جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے اجر کے برابر ہدایت کی طرف بلانے والے کو بھی ثواب ملے گا بغیر اس کے کہ اس کی اتباع کرنے والوں کے اجر و ثواب میں کچھ بھی کمی ہو، اور جس نے ضلالت (و گمراہی) کی طرف بلایا تو جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے گناہوں کے برابر گمراہی کی طرف بلانے والے کو بھی گناہ ملے گا بغیر اس کے کہ اس کی وجہ سے ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی کمی ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/العلم ٦ (٢٦٧٤) ، سنن ابی داود/ السنة ٧ (٤٧٠٩) (تحفة الأشراف : ١٣٩٧٦) ، وسنن الدارمی/المقدمة ٤٤ (٥٣٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (206) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2674
حدیث نمبر: 2674 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ يَتَّبِعُهُ لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا، وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلَالَةٍ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ يَتَّبِعُهُ لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৭৫
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس شخص کے بارے میں جس نے ہدایت کی طرف بلایا اور لوگوں نے اس کی تابعداری کی
جریر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا (کوئی اچھی سنت قائم کی) اور اس اچھے طریقہ کی پیروی کی گئی تو اسے (ایک تو) اسے اپنے عمل کا اجر ملے گا اور (دوسرے) جو اس کی پیروی کریں گے ان کے اجر و ثواب میں کسی طرح کی کمی کیے گئے بغیر ان کے اجر و ثواب کے برابر بھی اسے ثواب ملے گا، اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا اور اس برے طریقے کی پیروی کی گئی تو ایک تو اس پر اپنے عمل کا بوجھ (گناہ) ہوگا اور (دوسرے) جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے گناہوں کے برابر بھی اسی پر گناہ ہوگا، بغیر اس کے کہ اس کی پیروی کرنے والوں کے گناہوں میں کوئی کمی کی گئی ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث کئی سندوں سے جریر بن عبداللہ سے آئی ہے، اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے، ٣ - یہ حدیث منذر بن جریر بن عبداللہ سے بھی آئی ہے، جسے وہ اپنے والد جریر بن عبداللہ سے اور جریر نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، ٤ - یہ حدیث عبیداللہ بن جریر سے بھی آئی ہے، اور عبیداللہ اپنے والد جریر سے اور جریر نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، ٥ - اس باب میں حذیفہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٢٠ (١٠١٧) ، والعلم ٦ (١٠١٧/١٥) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٤ (٢٠٣) (تحفة الأشراف : ١٣٩٧٦) و مسند احمد (٤/٣٥٧، ٣٥٨، ٣٦١، ٣٦٢) ، وسنن الدارمی/المقدمة ٤٤ (٥١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہدایت یعنی ایمان ، توحید اور اتباع سنت کی طرف بلانے اور اسے پھیلانے کا اجر و ثواب اتنا ہے کہ اسے اس کے اس عمل کا ثواب تو ملے گا ہی ساتھ ہی قیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کے ثواب کے برابر مزید اسے ثواب سے نوازا جائے گا ، اسی طرح شر و فساد اور قتل و غارت گری اور بدعات و خرافات کے ایجاد کرنے والوں کو اپنے اس کرتوت کا گناہ تو ملے گا ہی ساتھ ہی اس پر عمل کرنے والوں کے گناہ کا وبال بھی اس پر ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (203 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2675
حدیث نمبر: 2675 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنِ ابْنِ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ سَنَّ سُنَّةَ خَيْرٍ فَاتُّبِعَ عَلَيْهَا فَلَهُ أَجْرُهُ وَمِثْلُ أُجُورِ مَنِ اتَّبَعَهُ غَيْرَ مَنْقُوصٍ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا، وَمَنْ سَنَّ سُنَّةَ شَرٍّ فَاتُّبِعَ عَلَيْهَا كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهُ وَمِثْلُ أَوْزَارِ مَنِ اتَّبَعَهُ، غَيْرَ مَنْقُوصٍ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئًا ، وفي الباب عن حُذَيْفَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوُ هَذَا، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنِ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْضًا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৭৬
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ سنت پر عمل اور بدعت سے اجتناب کے بارے میں
عرباض بن ساریہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن ہمیں نماز فجر کے بعد ایک موثر نصیحت فرمائی جس سے لوگوں کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں اور دل لرز گئے، ایک شخص نے کہا : یہ نصیحت ایسی ہے جیسی نصیحت دنیا سے (آخری بار) رخصت ہو کر جانے والے کیا کرتے ہیں، تو اللہ کے رسول ! آپ ہمیں کس بات کی وصیت کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : میں تم لوگوں کو اللہ سے ڈرتے رہنے، امیر کی بات سننے اور اسے ماننے کی نصیحت کرتا ہوں، اگرچہ تمہارا حاکم اور امیر ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ تم میں سے آئندہ جو زندہ رہے گا وہ (امت کے اندر) بہت سارے اختلافات دیکھے گا تو تم (باقی رہنے والوں) کو میری وصیت ہے کہ نئے نئے فتنوں اور نئی نئی بدعتوں میں نہ پڑنا، کیونکہ یہ سب گمراہی ہیں۔ چناچہ تم میں سے جو شخص ان حالات کو پالے تو اسے چاہیئے کہ وہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت پر قائم اور جمار ہے اور میری اس نصیحت کو اپنے دانتوں کے ذریعے مضبوطی سے دبا لے ۔ (اور اس پر عمل پیرا رہے ) امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ثور بن یزید نے بسند «خالد بن معدان عن عبدالرحمٰن بن عمرو السلمي عن العرباض بن سارية عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی طرح روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ السنة ٦ (٤٦٠٧) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٦ (٤٢) (تحفة الأشراف : ٩٨٩٠) ، وسنن الدارمی/المقدمة ١٦ (٩٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (42) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2676
حدیث نمبر: 2676 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو السُّلَمِيِّ، عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، قَالَ: وَعَظَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَعْدَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ، فَقَالَ رَجُلٌ: إِنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ، فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ: أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ، وَالسَّمْعِ، وَالطَّاعَةِ، وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ يَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّهَا ضَلَالَةٌ، فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو السُّلَمِيِّ، عَنْ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৭৭
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ سنت پر عمل اور بدعت سے اجتناب کے بارے میں
عمرو بن عوف (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بلال بن حارث (رض) سے کہا : سمجھ لو (جان لو) انہوں نے کہا : سمجھنے اور جاننے کی چیز کیا ہے ؟ اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : سمجھ لو اور جان لو ، انہوں نے عرض کیا : سمجھنے اور جاننے کی چیز کیا ہے ؟ اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : جس نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جس پر لوگوں نے میرے بعد عمل کرنا چھوڑ دیا ہے، تو اسے اتنا ثواب ملے گا جتنا کہ اس سنت پر عمل کرنے والوں کو ملے گا، یہ ان کے اجروں میں سے کچھ بھی کمی نہیں کرے گا، اور جس نے گمراہی کی کوئی نئی بدعت نکالی جس سے اللہ اور اس کا رسول راضی و خوش نہیں، تو اسے اس پر عمل کرنے والوں کے گناہوں کے برابر گناہ ہوگا، اس کے گناہوں میں سے کچھ بھی کمی نہیں کرے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - محم بن عیینہ مصیصی شامی ہیں، ٣ - اور کثیر بن عبداللہ سے مراد کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف مزنی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٥ (٢١٠) (تحفة الأشراف : ١٠٧٧٦) (ضعیف) (سند میں کثیر ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (210) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (37) ، تخريج السنة لابن أبي عاصم (42) ، المشکاة (1682) ، ضعيف الجامع الصغير (965) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2677
حدیث نمبر: 2677 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيِّ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ ابْنُ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِبِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ: اعْلَمْ ، قَالَ: مَا أَعْلَمُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: اعْلَمْ يَا بِلَالُ ، قَالَ: مَا أَعْلَمُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: إِنَّهُ مَنْ أَحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِي قَدْ أُمِيتَتْ بَعْدِي فَإِنَّ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلَ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا، وَمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَةَ ضَلَالَةٍ لَا يَرْضَاهَا اللَّهَ وَرَسُولَهُ كَانَ عَلَيْهِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِهَا لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أَوْزَارِ النَّاسِ شَيْئًا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ هُوَ مَصِّيصِيٌّ شَامِيٌّ، وَكَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ ابْنُ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيُّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৭৮
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ سنت پر عمل اور بدعت سے اجتناب کے بارے میں
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے بیٹے : اگر تم سے ہو سکے کہ صبح و شام تم اس طرح گزارے کہ تمہارے دل میں کسی کے لیے بھی کھوٹ (بغض، حسد، کینہ وغیرہ) نہ ہو تو ایسا کرلیا کرو ، پھر آپ نے فرمایا : میرے بیٹے ! ایسا کرنا میری سنت (اور میرا طریقہ) ہے، اور جس نے میری سنت کو زندہ کیا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں رہے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث میں ایک طویل قصہ بھی ہے، ٢ - اس سند سے یہ حدیث حسن غریب ہے، ٣ - محمد بن عبداللہ انصاری ثقہ ہیں، اور ان کے باپ بھی ثقہ ہیں، ٤ - علی بن زید صدوق ہیں (ان کا شمار سچوں میں ہے) بس ان میں اتنی سی کمی و خرابی ہے کہ وہ بسا اوقات بعض روایات کو جسے دوسرے راوی موقوفاً روایت کرتے ہیں اسے یہ مرفوع روایت کردیتے ہیں، ٥ - میں نے محمد بن بشار کو کہتے ہوئے سنا کہ ابوالولید نے کہا : شعبہ کہتے ہیں کہ مجھ سے علی بن زید نے حدیث بیان کی اور علی بن زید رفاع تھے، ٦ - ہم سعید بن مسیب کی انس کے واسطہ سے اس طویل حدیث کے سوا اور کوئی روایت نہیں جانتے، ٧ - عباد بن میسرہ منقری نے یہ حدیث علی بن زید کے واسطہ سے انس سے روایت کی ہے، لیکن انہوں نے اس حدیث میں سعید بن مسیب کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا، ٨ - میں نے اس حدیث کا محمد بن اسماعیل بخاری سے ذکر کر کے اس کے متعلق جاننا چاہا تو انہوں نے اس کے متعلق اپنی لاعلمی کا اظہار کیا، ٩ - انس بن مالک سے سعید بن مسیب کی روایت سے یہ یا اس کے علاوہ کوئی بھی حدیث معروف نہیں ہے۔ انس بن مالک ٩٣ ہجری میں انتقال فرما گئے اور سعید بن مسیب ان کے دو سال بعد ٩٥ ہجری میں اللہ کو پیارے ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٦٥) (ضعیف) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (175) // ضعيف الجامع الصغير (6389) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2678
حدیث نمبر: 2678 حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ حَاتِمٍ الْأَنْصَارِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، قَالَ: قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا بُنَيَّ إِنْ قَدَرْتَ أَنْ تُصْبِحَ وَتُمْسِيَ لَيْسَ فِي قَلْبِكَ غِشٌّ لِأَحَدٍ فَافْعَلْ، ثُمَّ قَالَ لِي: يَا بُنَيَّ وَذَلِكَ مِنْ سُنَّتِي، وَمَنْ أَحْيَا سُنَّتِي فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَحَبَّنِي كَانَ مَعِي فِي الْجَنَّةِ ، وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ ثِقَةٌ، وَأَبُوهُ ثِقَةٌ، وَعَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ صَدُوقٌ، إِلَّا أَنَّهُ رُبَّمَا يَرْفَعُ الشَّيْءَ الَّذِي يُوقِفُهُ غَيْرُهُ، قَالَ: وَسَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ بَشَّارٍ يَقُولُ: قَالَ أَبُو الْوَلِيدِ، قَالَ شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ وَكَانَ رَفَّاعًا، وَلَا نَعْرِفُ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَنَسٍ رِوَايَةً إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، وَقَدْ رَوَى عَبَّادُ بْنُ مَيْسَرَةَ الْمِنْقَرِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَذَاكَرْتُ بِهِ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل فَلَمْ يَعْرِفْهُ وَلَمْ يُعْرَفْ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَنَسٍ هَذَا الْحَدِيثُ وَلَا غَيْرُهُ، وَمَاتَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ سَنَةَ ثَلَاثٍ وَتِسْعِينَ، وَمَاتَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ بَعْدَهُ بِسَنَتَيْنِ، مَاتَ سَنَةَ خَمْسٍ وَتِسْعِينَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৭৯
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جن چیزوں کو نبی اکرم ﷺ نے منع فرمایا انہیں ترک کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں تم مجھے چھوڑے رکھو، پھر جب میں تم سے کوئی چیز بیان کروں تو اسے لے لو، کیونکہ تم سے پہلے لوگ بہت زیادہ سوالات کرنے اور اپنے انبیاء سے کثرت سے اختلافات کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتصام ٢ (٧٢٨٨) ، صحیح مسلم/الحج ٧٣ (١٣٣٧) ، والفضائل ٣٧ (١٣٣٧) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١ (١، ٢) (تحفة الأشراف : ١٢٥١٨) ، و مسند احمد (٢/٢٤٧، ٢٥٨، ٣١٣، ٤٢٨، ٤٤٨، ٤٥٧، ٤٦٧، ٤٨٢، ٤٩٥، ٥٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی خواہ مخواہ مسئلے مسائل پوچھ کر اپنے لیے تنگی اور دشواری نہ پیدا کرو ، میرے بیان کرنے کے مطابق اس پر عمل کرو ، کیونکہ کثرت سوال سے اسی طرح پریشانی میں پڑ سکتے ہو جیسا کہ تم سے پہلے کے لوگوں کا حال ہوا ، سورة البقرہ میں بنی اسرائیل کا جو حال بیان ہوا وہ اس سلسلہ میں بےانتہا عبرت آموز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1 - 2) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2679
حدیث نمبر: 2679 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اتْرُكُونِي مَا تَرَكْتُكُمْ فَإِذَا حَدَّثْتُكُمْ فَخُذُوا عَنِّي فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِكَثْرَةِ سُؤَالِهِمْ وَاخْتِلَافِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৮০
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مدینہ کے عالم کی فضیلت کے متعلق
ابوہریرہ (رض) سے مرفوعاً روایت ہے : عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ لوگ علم کی تلاش میں کثرت سے لمبے لمبے سفر طے کریں گے، لیکن (کہیں بھی) انہیں مدینہ کے عالم سے بڑا کوئی عالم نہ ملے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابن عیینہ سے مروی یہ حدیث حسن ہے، ٢ - سفیان بن عیینہ سے اس بارے میں جب پوچھا گیا کہ عالم مدینہ کون ہے ؟ تو انہوں نے کہا : مالک بن انس ہیں، ٣ - اسحاق بن موسیٰ کہتے ہیں : میں نے ابن عیینہ کو کہتے سنا کہ وہ (یعنی عالم مدینہ) عمری عبدالعزیز بن عبداللہ زاہد ہیں، ٤ - میں نے یحییٰ بن موسیٰ کو کہتے ہوئے سنا عبدالرزاق کہتے تھے کہ وہ (عالم مدینہ) مالک بن انس ہیں، ٥ - عمری یہ عبدالعزیز بن عبداللہ ہیں، اور یہ عمر بن خطاب کی اولاد میں سے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ١٢٨٧٧) ، و مسند احمد (٢/٢٩٩) (ضعیف) (سند میں ابن جریج اور ابوالزبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث سے اس کا ایک شاہد مروی ہے، مگر اس میں زہر بن محمد کثیر الغلط، اور سعید بن ابی ہند مدلس ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (246) ، التعليق علی التنکيل (1 / 385) ، الضعيفة (4833) // ضعيف الجامع الصغير (6448) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2680
حدیث نمبر: 2680 حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ، وَإِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رِوَايَةً يُوشِكُ أَنْ يَضْرِبَ النَّاسُ أَكْبَادَ الْإِبِلِ يَطْلُبُونَ الْعِلْمَ فَلَا يَجِدُونَ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْ عَالِمِ الْمَدِينَةِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَهُوَ حَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ أَنَّهُ قَالَ فِي هَذَا سُئِلَ: مَنْ عَالِمُ الْمَدِينَةِ ؟ فَقَالَ: إِنَّهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَقَالَ إِسْحَاق بْنُ مُوسَى، سَمِعْتُ ابْنَ عُيَيْنَةَ يَقُولُ: هُوَ الْعُمَرِيُّ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزَ الزَّاهِدُ وَاسْمُهُ: عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَسَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ مُوسَى يَقُولُ، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ، هُوَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَالْعُمَرِيُّ هُوَ عَبْدِ اللَّهِ بْنُ عَبْدُ الْعَزِيزِ مِنْ وَلَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৮১
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ علم عبادت سے افضل ہے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک فقیہ (عالم) ہزار عبادت کرنے والوں کے مقابلہ میں اکیلا شیطان پر حاوی اور بھاری ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ ہم اسے ولید بن مسلم کی روایت سے صرف اسی سند جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٧ (٢٢٢) (تحفة الأشراف : ٦٣٩٥) (موضوع) (سند میں روح بن جناح بہت ہی ضعیف ہے، بلکہ وضع سے متہم ہے ) قال الشيخ الألباني : موضوع، ابن ماجة (222) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (41) ، المشکاة (217) ، ضعيف الجامع (3987) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2681
حدیث نمبر: 2681 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ جَنَاحٍ، عَنْمُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَقِيهٌ أَشَدُّ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৮২
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ علم عبادت سے افضل ہے
قیس بن کثیر کہتے ہیں کہ ایک شخص مدینہ سے ابو الدرداء (رض) کے پاس دمشق آیا، ابوالدرداء (رض) نے اس سے کہا : میرے بھائی ! تمہیں یہاں کیا چیز لے کر آئی ہے، اس نے کہا : مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ آپ رسول اللہ ﷺ سے ایک حدیث بیان کرتے ہیں، ابو الدرداء نے کہا : کیا تم کسی اور ضرورت سے تو نہیں آئے ہو ؟ اس نے کہا : نہیں، انہوں نے کہا : کیا تم تجارت کی غرض سے تو نہیں آئے ہو ؟ اس نے کہا : نہیں۔ میں تو صرف اس حدیث کی طلب و تلاش میں آیا ہوں، ابو الدرداء نے کہا : (اچھا تو سنو) میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو شخص علم دین کی تلاش میں کسی راستہ پر چلے، تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اسے جنت کے راستہ پر لگا دیتا ہے۔ بیشک فرشتے طالب (علم) کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں، اور عالم کے لیے آسمان و زمین کی ساری مخلوقات مغفرت طلب کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ پانی کے اندر کی مچھلیاں بھی، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر، بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا، بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔ اس لیے جس نے اس علم کو حاصل کرلیا، اس نے (علم نبوی اور وراثت نبوی سے) پورا پورا حصہ لیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ہم عاصم بن رجاء بن حیوہ کی روایت کے سوا کسی اور طریقہ سے اس حدیث کو نہیں جانتے، اور اس حدیث کی سند میرے نزدیک متصل نہیں ہے۔ اسی طرح انہیں اسناد سے محمود بن خداش نے بھی ہم سے بیان کی ہے، ٢ - یہ حدیث عاصم بن رجاء بن حیوہ نے بسند «داود بن جميل عن کثير بن قيس عن أبي الدرداء عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے۔ اور یہ حدیث محمود بن خداش کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، اور محمد بن اسماعیل بخاری کی رائے ہے کہ یہ زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ العلم ١ (٣٦٤١) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٧ (٢٢٣) (تحفة الأشراف : ١٠٩٥٨) ، وسنن الدارمی/المقدمة ٣٢ (٣٥٤) (صحیح) (سند میں کثیر بن قیس، یا قیس بن کثیر ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے : زہد وکیع رقم ٥١٩ ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ علماء و محدثین بہت بڑی فضیلت کے حامل ہیں ، حصول علم کے لیے دور دراز کا سفر درکار ہے ، یہ سفر خالص علم دین کی نیت سے ہو کوئی دنیوی غرض اس کے ساتھ شامل نہ ہو ، علم دین حاصل کرنے والے کے لیے جنت کا راستہ آسان ہوجاتا ہے ، کائنات کی ساری مخلوق اس کے لیے مغفرت طلب کرتی ہیں ، علماء انبیاء کے حقیقی وارث ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (223) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2682
حدیث نمبر: 2682 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خِدَاشٍ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ كَثِيرٍ، قَالَ: قَدِمَ رَجُلٌ مِنْ الْمَدِينَةِ عَلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ وَهُوَ بِدِمَشْقَ، فَقَالَ: مَا أَقْدَمَكَ يَا أَخِي ؟ فَقَالَ: حَدِيثٌ بَلَغَنِي أَنَّكَ تُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَمَا جِئْتَ لِحَاجَةٍ ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: أَمَا قَدِمْتَ لِتِجَارَةٍ ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: مَا جِئْتُ إِلَّا فِي طَلَبِ هَذَا الْحَدِيثِ ؟ قَالَ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَبْتَغِي فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضَاءً لِطَالِبِ الْعِلْمِ، وَإِنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ حَتَّى الْحِيتَانُ فِي الْمَاءِ، وَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ، إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ، إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا إِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَ بِهِ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَاصِمِ بْنِ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ، وَلَيْسَ هُوَ عِنْدِي بِمُتَّصِلٍ هَكَذَا، حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خِدَاشٍ هَذَا الْحَدِيثَ، وَإِنَّمَا يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ جَمِيلٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مَحْمُودِ بْنِ خِدَاشٍ، وَرَأْيُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيل هَذَا أَصَحُّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৮৩
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ علم عبادت سے افضل ہے
یزید بن سلمہ جعفی کہتے ہیں کہ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں نے بہت سی حدیثیں آپ سے سنی ہیں، میں ڈرتا ہوں کہ کہیں بعد کی حدیثیں شروع کی حدیثوں کو بھلا نہ دیں، آپ مجھے کوئی ایسا کلمہ (کوئی ایسی بات) بتا دیجئیے جو دونوں (اول و آخر) کو ایک ساتھ باقی رکھنے کا ذریعہ بنے۔ آپ نے فرمایا : جو کچھ بھی تم جانتے ہو ان کے متعلق اللہ کا خوف و تقویٰ ملحوظ رکھو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث ایسی ہے جس کی سند متصل نہیں ہے، یہ حدیث میرے نزدیک مرسل ہے۔ ٢ - میرے نزدیک ابن اشوع نے یزید بن سلمی (کے دور) کو نہیں پایا ہے، ٣ - ابن اشوع کا نام سعید بن اشوع ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٨٣٠) (ضعیف) (سعید بن اشوع کا سماع یزید بن سلمہ (رض) سے نہیں ہے، یعنی سند میں انقطاع ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جن چیزوں سے تمہیں روکا گیا ہے ان سے باز رہو ، اور جن چیزوں پر عمل کا حکم دیا گیا ہے ان پر عمل جاری رکھو ، ایسا کرنا تمہارے لیے حدیثوں کے حفظ کے تعلق سے بہتر ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1696) // ضعيف الجامع الصغير (108) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2683
حدیث نمبر: 2683 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، عَنِ ابْنِ أَشْوَعَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ سَلَمَةَ الْجُعْفِيِّ، قَالَ: قَالَ يَزِيدُ بْنُ سَلَمَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي قَدْ سَمِعْتُ مِنْكَ حَدِيثًا كَثِيرًا أَخَافُ أَنْ يُنْسِيَنِي أَوَّلَهُ آخِرُهُ فَحَدِّثْنِي بِكَلِمَةٍ تَكُونُ جِمَاعًا، قَالَ: اتَّقِ اللَّهَ فِيمَا تَعْلَمُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ، وَهُوَ عِنْدِي مُرْسَلٌ، وَلَمْ يُدْرِكْ عِنْدِي ابْنُ أَشْوَعَ يَزِيدَ بْنَ سَلَمَةَ، وَابْنُ أَشْوَعَ اسْمُهُ: سَعِيدُ بْنُ أَشْوَعَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬৮৪
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ علم عبادت سے افضل ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : منافق میں دو خصلتیں (صفتیں) جمع نہیں ہوسکتی ہیں : حسن اخلاق اور دین کی سمجھ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم عوف کی اس حدیث کو صرف شیخ خلف بن ایوب عامری کی روایت سے جانتے ہیں، اور ابوکریب محمد بن علاء کے سوا کسی کو ہم نہیں جانتے جس نے خلف بن ایوب عامری سے روایت کی ہے، اور ہم نہیں جانتے کہ وہ کیسے شخص ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤٤٨٧) (صحیح) (دیکھئے : الصحیحة ٢٧٨، و تراجع الألبانی ٤٦٨ ) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (219 / التحقيق الثاني) ، الصحيحة (278) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2684
حدیث نمبر: 2684 حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ أَيُّوبَ الْعَامِرِيُّ، عَنْ عَوْفٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خَصْلَتَانِ لَا تَجْتَمِعَانِ فِي مُنَافِقٍ: حُسْنُ سَمْتٍ، وَلَا فِقْهٌ فِي الدِّينِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَلَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ حَدِيثِ عَوْفٍ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ هَذَا الشَّيْخِ خَلَفِ بْنِ أَيُّوبَ الْعَامِرِيِّ، وَلَمْ أَرَ أَحَدًا يَرْوِي عَنْهُ غَيْرَ أَبِي كُرَيْبٍ مُحَمَّدِ بْنِ الْعَلَاءِ، وَلَا أَدْرِي كَيْفَ هُوَ.
তাহকীক: