আল জামিউস সহীহ- ইমাম বুখারী রহঃ (উর্দু)
الجامع الصحيح للبخاري
حوالہ کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৩১ টি
হাদীস নং: ২২৮০
حوالہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ باب: پچھنا لگانے والے کی اجرت کا بیان۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے مسعر نے بیان کیا، ان سے عمرو بن عامر نے بیان کیا کہ میں نے انس (رض) سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے پچھنا لگوایا، اور آپ ﷺ کسی کی مزدوری کے معاملے میں کسی پر ظلم نہیں کرتے تھے۔
حدیث نمبر: 2280 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَيَحْتَجِمُ، وَلَمْ يَكُنْ يَظْلِمُ أَحَدًا أَجْرَهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২২৮১
حوالہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ باب: اس کے متعلق جس نے کسی غلام کے مالکوں سے غلام کے اوپر مقررہ ٹیکس میں کمی کے لیے سفارش کی۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے بیان کیا، اور ان سے انس بن مالک (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک پچھنا لگانے والے غلام (ابوطیبہ) کو بلایا، انہوں نے آپ ﷺ کے پچھنا لگایا۔ اور آپ ﷺ نے انہیں ایک یا دو صاع، یا ایک یا دو مد (راوی حدیث شعبہ کو شک تھا) اجرت دینے کے لیے حکم فرمایا۔ آپ ﷺ نے (ان کے مالکوں سے بھی) ان کے بارے میں سفارش فرمائی تو ان کا خراج کم کردیا گیا۔
حدیث نمبر: 2281 حَدَّثَنَا آدَمُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلَامًا حَجَّامًا فَحَجَمَهُ، وَأَمَرَ لَهُ بِصَاعٍ أَوْ صَاعَيْنِ، أَوْ مُدٍّ أَوْ مُدَّيْنِ، وَكَلَّمَ فِيهِ، فَخُفِّفَ مِنْ ضَرِيبَتِهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২২৮২
حوالہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ باب: رنڈی اور فاحشہ لونڈی کی خرچی کا بیان۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام نے بیان کیا، ان سے ابومسعود انصاری (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت، زانیہ (کے زنا) کی خرچی اور کاہن کی مزدوری سے منع فرمایا۔
حدیث نمبر: 2282 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَنَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ، وَمَهْرِ الْبَغِيِّ، وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২২৮৩
حوالہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ باب: رنڈی اور فاحشہ لونڈی کی خرچی کا بیان۔
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن حجادہ نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے باندیوں کی زنا کی کمائی سے منع فرمایا تھا۔
حدیث نمبر: 2283 حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كَسْبِ الْإِمَاءِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২২৮৪
حوالہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ باب: نر کی جفتی (پر اجرت) لینا۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث اور اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے علی بن حکم نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے نرکدانے کی اجرت لینے سے منع فرمایا۔
حدیث نمبر: 2284 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَسْبِ الْفَحْلِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২২৮৫
حوالہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ باب: اگر کوئی زمین کو ٹھیکہ پر لے پھر ٹھیکہ دینے والا یا لینے والا مر جائے۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جویریہ بن اسماء نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے (یہودیوں کو) خیبر کی زمین دے دی تھی کہ اس میں محنت کے ساتھ کاشت کریں اور پیداوار کا آدھا حصہ خود لے لیا کریں۔ ابن عمر (رض) نے نافع سے یہ بیان کیا کہ زمین کچھ کرایہ پر دی جاتی تھی۔ نافع نے اس کرایہ کی تعیین بھی کردی تھی لیکن وہ مجھے یاد نہیں رہا۔ اور رافع بن خدیج (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے زمینوں کو کرایہ پر دینے سے منع فرمایا تھا اور عبیداللہ نے نافع سے بیان کیا، اور ان سے ابن عمر (رض) نے کہ (خیبر کے یہودیوں کے ساتھ وہاں کی زمین کا معاملہ برابر چلتا رہا) یہاں تک کہ عمر (رض) نے انہیں جلا وطن کردیا۔
حدیث نمبر: 2285 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ الْيَهُودَ، أَنْ يَعْمَلُوهَا وَيَزْرَعُوهَا، وَلَهُمْ شَطْرُ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا، وَأَنَّ ابْنَ عُمَرَ حَدَّثَهُ، أَنَّ الْمَزَارِعَ كَانَتْ تُكْرَى عَلَى شَيْءٍ سَمَّاهُ نَافِعٌ لَا أَحْفَظُهُ، حدیث نمبر: 2286 وَأَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ حَدَّثَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَنَهَى عَنْ كِرَاءِ الْمَزَارِعِ، وَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ : عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، حَتَّى أَجْلَاهُمْ عُمَرُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২২৮৭
حوالہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ باب: حوالہ یعنی قرض کو کسی دوسرے پر اتارنے کا بیان اور اس کا بیان کہ حوالہ میں رجوع کرنا درست ہے یا نہیں۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک (رح) نے خبر دی، انہیں ابوالزناد نے، انہیں اعرج نے اور انہیں ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (قرض ادا کرنے میں) مالدار کی طرف سے ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ اور اگر تم میں سے کسی کا قرض کسی مالدار پر حوالہ دیا جائے تو اسے قبول کرے۔
حدیث نمبر: 2287 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، فَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيٍّ فَلْيَتْبَعْ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২২৮৮
حوالہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ باب: جب قرض کسی مالدار کے حوالہ کر دیا جائے تو اس کا رد کرنا جائز نہیں۔
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ابن ذکوان نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مالدار کی طرف سے (قرض ادا کرنے میں) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ اور اگر کسی کا قرض کسی مالدار کے حوالہ کیا جائے تو وہ اسے قبول کرے۔
حدیث نمبر: 2288 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ ابْنِ ذَكْوَانَ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، وَمَنْ أُتْبِعَ عَلَى مَلِيٍّ فَلْيَتَّبِعْ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২২৮৯
حوالہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ باب: اگر کسی میت کا قرض کسی (زندہ) شخص کے حوالہ کیا جائے تو جائز ہے۔
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن اکوع (رض) نے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا۔ لوگوں نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ اس کی نماز پڑھا دیجئیے۔ اس پر آپ ﷺ نے پوچھا کیا اس پر کوئی قرض ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ نہیں کوئی قرض نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ میت نے کچھ مال بھی چھوڑا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کوئی مال بھی نہیں چھوڑا۔ آپ ﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اس کے بعد ایک دوسرا جنازہ لایا گیا لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ ان کی بھی نماز جنازہ پڑھا دیجئیے۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا، کسی کا قرض بھی میت پر ہے ؟ عرض کیا گیا کہ ہے۔ پھر آپ ﷺ نے دریافت فرمایا، کچھ مال بھی چھوڑا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ تین دینار چھوڑے ہیں۔ آپ نے ان کی بھی نماز جنازہ پڑھائی۔ پھر تیسرا جنازہ لایا گیا۔ لوگوں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ اس کی نماز پڑھا دیجئیے۔ نبی کریم ﷺ نے ان کے متعلق بھی وہی دریافت فرمایا، کیا کوئی مال ترکہ چھوڑا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا، اور اس پر کسی کا قرض بھی ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں تین دینار ہیں۔ آپ ﷺ نے اس پر فرمایا کہ پھر اپنے ساتھی کی تم ہی لوگ نماز پڑھ لو۔ ابوقتادۃ (رض) بولے، یا رسول اللہ ! آپ ﷺ ان کی نماز پڑھا دیجئیے، ان کا قرض میں ادا کر دوں گا۔ تب آپ ﷺ نے اس پر نماز پڑھائی۔
حدیث نمبر: 2289 حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ، فَقَالُوا: صَلِّ عَلَيْهَا، فَقَالَ: هَلْ عَلَيْهِ دَيْنٌ ؟ قَالُوا: لَا، قَالَ: فَهَلْ تَرَكَ شَيْئًا ؟ قَالُوا: لَا، فَصَلَّى عَلَيْهِ، ثُمَّ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ أُخْرَى، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صَلِّ عَلَيْهَا، قَالَ: هَلْ عَلَيْهِ دَيْنٌ ؟ قِيلَ: نَعَمْ، قَالَ: فَهَلْ تَرَكَ شَيْئًا ؟ قَالُوا: ثَلَاثَةَ دَنَانِيرَ، فَصَلَّى عَلَيْهَا، ثُمَّ أُتِيَ بِالثَّالِثَةِ، فَقَالُوا: صَلِّ عَلَيْهَا، قَالَ: هَلْ تَرَكَ شَيْئًا ؟ قَالُوا: لَا، قَالَ: فَهَلْ عَلَيْهِ دَيْنٌ ؟ قَالُوا: ثَلَاثَةُ دَنَانِيرَ، قَالَ: صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ، قَالَ أَبُو قَتَادَةَ: صَلِّ عَلَيْهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَعَلَيَّ دَيْنُهُ، فَصَلَّى عَلَيْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২২৯০
حوالہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ باب: قرضوں وغیرہ کی حاضر ضمانت اور مالی ضمانت کے بیان میں۔
باب : قرضوں وغیرہ کی حاضر ضمانت اور مالی ضمانت کے بیان میں اور ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے محمد بن حمزہ بن عمرو الاسلمی نے اور ان سے ان کے والد (حمزہ) نے کہ عمر (رض) نے (اپنے عہد خلافت میں) انہیں زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ (جہاں وہ زکوٰۃ وصول کر رہے تھے وہاں کے) ایک شخص نے اپنی بیوی کی باندی سے ہمبستری کرلی۔ حمزہ نے اس کی ایک شخص سے پہلے ضمانت لی، یہاں تک کہ وہ عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عمر (رض) نے اس شخص کو سو کوڑوں کی سزا دی تھی۔ اس آدمی نے جو جرم اس پر لگا تھا اس کو قبول کیا تھا لیکن جہالت کا عذر کیا تھا۔ عمر (رض) نے اس کو معذور رکھا تھا اور جریر اور اشعث نے عبداللہ بن مسعود سے مرتدوں کے بارے میں کہا کہ ان سے توبہ کرائیے اور ان کی ضمانت طلب کیجئے (کہ دوبارہ مرتد نہ ہوں گے) چناچہ انہوں نے توبہ کرلی اور ضمانت خود انہیں کے قبیلہ والوں نے دے دی۔ حماد نے کہا جس کا حاضر ضامن ہو اگر وہ مرجائے تو ضامن پر کچھ تاوان نہ ہوگا۔ لیکن حکم نے کہا کہ ذمہ کا مال دینا پڑے گا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) نے کہا کہ لیث نے بیان کیا، ان سے جعفر بن ربیعہ نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے بنی اسرائیل کے ایک دوسرے آدمی سے ایک ہزار دینار قرض مانگے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ایسے گواہ لا جن کی گواہی پر مجھے اعتبار ہو۔ قرض مانگنے والا بولا کہ گواہ تو بس اللہ ہی کافی ہے پھر انہوں نے کہا کہ اچھا کوئی ضامن لا۔ قرض مانگنے والا بولا کہ ضامن بھی اللہ ہی کافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تو نے سچی بات کہی۔ چناچہ اس نے ایک مقررہ مدت کے لیے اس کو قرض دے دیا۔ یہ صاحب قرض لے کر دریائی سفر پر روانہ ہوئے اور پھر اپنی ضرورت پوری کر کے کسی سواری (کشتی وغیرہ) کی تلاش کی تاکہ اس سے دریا پار کر کے اس مقررہ مدت تک قرض دینے والے کے پاس پہنچ سکے جو اس سے طے پائی تھی۔ (اور اس کا قرض ادا کر دے) لیکن کوئی سواری نہیں ملی۔ آخر ایک لکڑی لی اور اس میں سوراخ کیا۔ پھر ایک ہزار دینار اور ایک (اس مضمون کا) خط کہ اس کی طرف سے قرض دینے والے کی طرف (یہ دینار بھیجے جا رہے ہیں) اور اس کا منہ بند کردیا۔ اور اسے دریا پر لے آئے، پھر کہا، اے اللہ ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لیے تھے۔ اس نے مجھ سے ضامن مانگا تو میں نے کہہ دیا تھا کہ میرا ضامن اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہ بھی تجھ پر راضی ہوا۔ اس نے مجھ سے گواہ مانگا تو اس کا بھی جواب میں نے یہی دیا کہ اللہ پاک گواہ کافی ہے تو وہ مجھ پر راضی ہوگیا اور (تو جانتا ہے کہ) میں نے بہت کوشش کی کہ کوئی سواری ملے جس کے ذریعہ میں اس کا قرض اس تک (مدت مقررہ میں) پہنچا سکوں۔ لیکن مجھے اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ اس لیے اب میں اس کو تیرے ہی حوالے کرتا ہوں (کہ تو اس تک پہنچا دے) چناچہ اس نے وہ لکڑی جس میں رقم تھی دریا میں بہا دی۔ اب وہ دریا میں تھی اور وہ صاحب (قرض دار) واپس ہوچکے تھے۔ اگرچہ فکر اب بھی یہی تھا کہ کس طرح کوئی جہاز ملے۔ جس کے ذریعہ وہ اپنے شہر میں جاسکیں۔ دوسری طرف وہ صاحب جنہوں نے قرض دیا تھا اسی تلاش میں (بندرگاہ) آئے کہ ممکن ہے کوئی جہاز ان کا مال لے کر آیا ہو۔ لیکن وہاں انہیں ایک لکڑی ملی۔ وہی جس میں مال تھا۔ انہوں نے لکڑی اپنے گھر میں ایندھن کے لیے لے لی۔ لیکن جب اسے چیرا تو اس میں سے دینار نکلے اور ایک خط بھی نکلا۔ (کچھ دنوں کے بعد جب وہ صاحب اپنے شہر آئے) تو قرض خواہ کے گھر آئے۔ اور (یہ خیال کر کے کہ شاید وہ لکڑی نہ مل سکی ہو دوبارہ) ایک ہزار دینا ان کی خدمت میں پیش کردیئے۔ اور کہا کہ قسم اللہ کی ! میں تو برابر اسی کوشش میں رہا کہ کوئی جہاز ملے تو تمہارے پاس تمہارا مال لے کر پہنچوں لیکن اس دن سے پہلے جب کہ میں یہاں پہنچنے کے لیے سوار ہوا۔ مجھے اپنی کوششوں میں کامیابی نہیں ہوئی۔ پھر انہوں نے پوچھا اچھا یہ تو بتاؤ کہ کوئی چیز کبھی تم نے میرے نام بھیجی تھی ؟ مقروض نے جواب دیا بتا تو رہا ہوں آپ کو کہ کوئی جہاز مجھے اس جہاز سے پہلے نہیں ملا جس سے میں آج پہنچا ہوں۔ اس پر قرض خواہ نے کہا کہ پھر اللہ نے بھی آپ کا وہ قرضا ادا کردیا۔ جسے آپ نے لکڑی میں بھیجا تھا۔ چناچہ وہ صاحب اپنا ہزار دینار لے کر خوش خوش واپس لوٹ گئے۔
1- بَابُ الْكَفَالَةِ فِي الْقَرْضِ وَالدُّيُونِ بِالأَبْدَانِ وَغَيْرِهَا: وَقَالَ أَبُو الزِّنَادِ: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَمْزَةَ بْنِ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، بَعَثَهُ مُصَدِّقًا، فَوَقَعَ رَجُلٌ عَلَى جَارِيَةِ امْرَأَتِهِ، فَأَخَذَ حَمْزَةُ مِنَ الرَّجُلِ كَفِيلًا، حَتَّى قَدِمَ عَلَى عُمَرَ، وَكَانَ عُمَرُ قَدْ جَلَدَهُ مِائَةَ جَلْدَةٍ فَصَدَّقَهُمْ وَعَذَرَهُ بِالْجَهَالَةِ، وَقَالَ جَرِيرٌ، وَالْأَشْعَثُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ فِي الْمُرْتَدِّينَ: اسْتَتِبْهُمْ وَكَفِّلْهُمْ، فَتَابُوا وَكَفَلَهُمْ عَشَائِرُهُمْ، وَقَالَ حَمَّادٌ: إِذَا تَكَفَّلَ بِنَفْسٍ فَمَاتَ، فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ، وَقَالَ الْحَكَمُ: يَضْمَنُ. حدیث نمبر: 2291 قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ ذَكَرَ رَجُلًا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، سَأَلَ بَعْضَ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنْ يُسْلِفَهُ أَلْفَ دِينَارٍ، فَقَالَ: ائْتِنِي بِالشُّهَدَاءِ أُشْهِدُهُمْ، فَقَالَ: كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا، قَالَ: فَأْتِنِي بِالْكَفِيلِ، قَالَ: كَفَى بِاللَّهِ كَفِيلًا، قَالَ: صَدَقْتَ، فَدَفَعَهَا إِلَيْهِ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى، فَخَرَجَ فِي الْبَحْرِ فَقَضَى حَاجَتَهُ، ثُمَّ الْتَمَسَ مَرْكَبًا يَرْكَبُهَا يَقْدَمُ عَلَيْهِ لِلْأَجَلِ الَّذِي أَجَّلَهُ، فَلَمْ يَجِدْ مَرْكَبًا فَأَخَذَ خَشَبَةً، فَنَقَرَهَا فَأَدْخَلَ فِيهَا أَلْفَ دِينَارٍ وَصَحِيفَةً مِنْهُ إِلَى صَاحِبِهِ، ثُمَّ زَجَّجَ مَوْضِعَهَا، ثُمَّ أَتَى بِهَا إِلَى الْبَحْرِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنِّي كُنْتُ تَسَلَّفْتُ فُلَانًا أَلْفَ دِينَارٍ فَسَأَلَنِي كَفِيلَا، فَقُلْتُ: كَفَى بِاللَّهِ كَفِيلًا، فَرَضِيَ بِكَ وَسَأَلَنِي شَهِيدًا، فَقُلْتُ: كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا فَرَضِيَ بِكَ، وَأَنِّي جَهَدْتُ أَنْ أَجِدَ مَرْكَبًا أَبْعَثُ إِلَيْهِ الَّذِي لَهُ فَلَمْ أَقْدِرْ، وَإِنِّي أَسْتَوْدِعُكَهَا فَرَمَى بِهَا فِي الْبَحْرِ، حَتَّى وَلَجَتْ فِيهِ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَهُوَ فِي ذَلِكَ يَلْتَمِسُ مَرْكَبًا يَخْرُجُ إِلَى بَلَدِهِ، فَخَرَجَ الرَّجُلُ الَّذِي كَانَ أَسْلَفَهُ يَنْظُرُ، لَعَلَّ مَرْكَبًا قَدْ جَاءَ بِمَالِهِ، فَإِذَا بِالْخَشَبَةِ الَّتِي فِيهَا الْمَالُ فَأَخَذَهَا لِأَهْلِهِ حَطَبًا، فَلَمَّا نَشَرَهَا وَجَدَ الْمَالَ وَالصَّحِيفَةَ، ثُمَّ قَدِمَ الَّذِي كَانَ أَسْلَفَهُ فَأَتَى بِالْأَلْفِ دِينَارٍ، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا زِلْتُ جَاهِدًا فِي طَلَبِ مَرْكَبٍ لِآتِيَكَ بِمَالِكَ، فَمَا وَجَدْتُ مَرْكَبًا قَبْلَ الَّذِي أَتَيْتُ فِيهِ، قَالَ: هَلْ كُنْتَ بَعَثْتَ إِلَيَّ بِشَيْءٍ ؟ قَالَ: أُخْبِرُكَ أَنِّي لَمْ أَجِدْ مَرْكَبًا قَبْلَ الَّذِي جِئْتُ فِيهِ، قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ أَدَّى عَنْكَ الَّذِي بَعَثْتَ فِي الْخَشَبَةِ، فَانْصَرِفْ بِالْأَلْفِ الدِّينَارِ رَاشِدًا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২২৯৮
حوالہ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ باب: قرض کا بیان۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب کسی ایسی میت کو لایا جاتا جس پر کسی کا قرض ہوتا تو آپ ﷺ فرماتے کہ کیا اس نے اپنے قرض کے ادا کرنے کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے ؟ پھر اگر کوئی آپ کو بتادیتا کہ ہاں اتنا مال ہے جس سے قرض ادا ہوسکتا ہے۔ تو آپ ﷺ اس کی نماز پڑھاتے ورنہ آپ ﷺ مسلمانوں ہی سے فرما دیتے کہ اپنے ساتھی کی نماز پڑھ لو۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ پر فتح کے دروازے کھول دیئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں مسلمانوں کا خود ان کی ذات سے بھی زیادہ مستحق ہوں۔ اس لیے اب جو بھی مسلمان وفات پا جائے اور وہ مقروض رہا ہو تو اس کا قرض ادا کرنا میرے ذمے ہے اور جو مسلمان مال چھوڑ جائے وہ اس کے وارثوں کا حق ہے۔
حدیث نمبر: 2298 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يُؤْتَى بِالرَّجُلِ الْمُتَوَفَّى عَلَيْهِ الدَّيْنُ فَيَسْأَلُ، هَلْ تَرَكَ لِدَيْنِهِ فَضْلًا ؟ فَإِنْ حُدِّثَ أَنَّهُ تَرَكَ لِدَيْنِهِ وَفَاءً صَلَّى، وَإِلَّا، قَالَ لِلْمُسْلِمِينَ: صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ، فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْفُتُوحَ، قَالَ: أَنَا أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، فَمَنْ تُوُفِّيَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فَتَرَكَ دَيْنًا فَعَلَيَّ قَضَاؤُهُ، وَمَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِوَرَثَتِهِ.
তাহকীক: