আলমুসনাদ - ইমাম আহমদ রহঃ (উর্দু)

مسند امام احمد بن حنبل

حضرت علی (رض) کی مرویات - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ৭৭৯ টি

হাদীস নং: ৬১০
حضرت علی (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت علی (رض) کی مرویات
حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مہدی کا تعلق ہم اہل بیت سے ہوگا، اللہ اسے ایک ہی رات میں سنوار دے گا۔
حَدَّثَنَا فَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ حَدَّثَنَا يَاسِينُ الْعِجْلِيُّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَهْدِيُّ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ يُصْلِحُهُ اللَّهُ فِي لَيْلَةٍ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৬১১
حضرت علی (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت علی (رض) کی مرویات
حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ کی خدمت میں، فاطمہ (رض) ، حضرت عباس اور حضرت زید بن حارثہ (رض) بھی موجود تھے، حضرت عباس (رض) کہنے لگے یا رسول اللہ ! میں اب بوڑھا ہوگیا ہوں، میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اور میری ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں، اگر آپ مجھے اتنے من غلہ اور گندم دے دیں تو میرا کام بن جائے گا، نبی ﷺ نے فرمایا کہ اچھا دے دیں گے۔ حضرت فاطمہ (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اگر مناسب سمجھیں تو آپ نے اپنے چچا کے لئے جو حکم دیا ہے وہ ہمارے لئے بھی دے دیں، نبی ﷺ نے فرمایا : اچھا دے دیں گے، پھر حضرت زید بن حارثہ کہنے لگے یا رسول اللہ ! آپ نے مجھے زمین کا ایک ٹکڑا عطاء فرمایا تھا جس سے میری گذراوقات ہوجاتی تھی، لیکن پھر آپ نے وہ زمین واپس لے لی، اگر آپ مناسب خیال فرمائیں تو وہ مجھے واپس کردیں فرمایا اچھا کردیں گے۔ اس کے بعد میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ نے قرآن کریم میں ہمارے لئے خمس کا جو حق مقرر فرمایا ہے، اگر آپ مناسب خیال فرمائیں تو مجھے اس کا نگران بنا دیجئے تاکہ میں آپ کی حیات طیبہ میں اسے تقسیم کیا کروں اور آپ کے بعد کوئی شخص اس میں مجھ سے جھگڑا نہ کرسکے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا اچھا بنادیں گے۔ چناچہ نبی ﷺ نے مجھے اس کا نگران بنادیا اور میں نبی ﷺ کی حیات میں اسے تقسیم کرتا رہا، حضرت ابوبکر (رض) نے بھی اپنے زمانے میں مجھے اس کی نگرانی پر برقرار رکھا اور میں ان کی حیات میں بھی اسے تقسیم کرتا رہا اور حضرت عمر (رض) نے بھی مجھے اس پر برقرار رکھا اور میں اسے تقسیم کرتا رہا لیکن جب حضرت عمر فاروق (رض) کا آخری سال تھا تو اس کی نگرانی مجھ سے لے لی گئی، اس وقت ان کے پاس بہت مال آیا تھا۔ ( اور وہ مختلف طریقہ اختیار کرنا چاہتے تھے) ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْبَرِيدِ عَنْ حُسَيْنِ بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَاضِي الرَّيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ سَمِعْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ اجْتَمَعْتُ أَنَا وَفَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَالْعَبَّاسُ وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الْعَبَّاسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَبِرَ سِنِّي وَرَقَّ عَظْمِي وَكَثُرَتْ مُؤْنَتِي فَإِنْ رَأَيْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ تَأْمُرَ لِي بِكَذَا وَكَذَا وَسْقًا مِنْ طَعَامٍ فَافْعَلْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْعَلُ فَقَالَتْ فَاطِمَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ رَأَيْتَ أَنْ تَأْمُرَ لِي كَمَا أَمَرْتَ لِعَمِّكَ فَافْعَلْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْعَلُ ذَلِكَ ثُمَّ قَالَ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كُنْتَ أَعْطَيْتَنِي أَرْضًا كَانَتْ مَعِيشَتِي مِنْهَا ثُمَّ قَبَضْتَهَا فَإِنْ رَأَيْتَ أَنْ تَرُدَّهَا عَلَيَّ فَقَلْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْعَلُ فَقَالَتْ فَاطِمَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ رَأَيْتَ أَنْ تَأْمُرَ لِي كَمَا أَمَرْت لِعَمِّكَ فَافْعَلْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ نَفْعَلُ ذَلِكَ قَالَ فَقُلْتُ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ رَأَيْتَ أَنْ تُوَلِّيَنِي هَذَا الْحَقَّ الَّذِي جَعَلَهُ اللَّهُ لَنَا فِي كِتَابِهِ مِنْ هَذَا الْخُمُسِ فَأَقْسِمُهُ فِي حَيَاتِكَ كَيْ لَا يُنَازِعَنِيهِ أَحَدٌ بَعْدَكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْعَلُ ذَاكَ فَوَلَّانِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَسَمْتُهُ فِي حَيَاتِهِ ثُمَّ وَلَّانِيهِ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَسَمْتُهُ فِي حَيَاتِهِ ثُمَّ وَلَّانِيهِ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَسَمْتُ فِي حَيَاتِهِ حَتَّى كَانَتْ آخِرُ سَنَةٍ مِنْ سِنِي عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَإِنَّهُ أَتَاهُ مَالٌ كَثِيرٌ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৬১২
حضرت علی (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت علی (رض) کی مرویات
حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضری کا شرف مجھے ایک ایسے وقت میں حاصل ہوتا تھا جو مخلوق میں میرے علاوہ کسی کو حاصل نہ ہوسکا، میں روزانہ سحری کے وقت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اور سلام کرتا تھا نبی ﷺ کھانس کر مجھے اندر آنے کی اجازت عطاء فرما دیتے۔ ایک مرتبہ میں رات کے وقت نبی ﷺ کے پاس پہنچا اور حسب عادت سلام کرتے ہوئے کہا السلام علیک یا نبی اللہ آپ ﷺ نے فرمایا ابوالحسن ! رکو، میں خود ہی باہر آرہا ہوں، جب نبی ﷺ باہر تشریف لائے تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ! کیا کسی نے آپ کو غصہ دلایا ہے ؟ فرمایا نہیں میں نے پوچھا تو پھر کل گذشتہ رات آپ نے مجھ سے کوئی بات کیوں نہیں کی ؟ فرمایا مجھے اپنے حجرے میں کسی چیز کی آہٹ محسوس ہوئی، میں نے پوچھا کون ہے ؟ آواز آئی کہ میں جبرئیل ہوں، میں نے انہیں اندر آنے کے لئے کہا تو وہ کہنے لگے نہیں، آپ ہی باہر تشریف لے آئیے۔ جب میں باہر آیا تو وہ کہنے لگے کہ آپ کے گھر میں ایک ایسی چیز ہے کہ وہ جب تک گھر میں رہے گی، کوئی فرشتہ بھی گھر میں داخل نہ ہوگا، میں نے کہا کہ جبرئیل ! مجھے تو ایسی کسی چیز کا علم نہیں ہے، وہ کہنے لگے کہ جا کر اچھی طرح دیکھئے، میں نے گھر کھول کر دیکھا تو وہاں کتے کے ایک چھوٹے سے بچے کے علاوہ مجھے کوئی اور چیز نہیں ملی جس سے حسن کھیل رہے تھے چناچہ میں نے آکر ان سے یہی کہا کہ مجھے تو کتے کے ایک چھوٹے سے پلے کے علاوہ کچھ نہیں ملا، اس پر انہوں نے کہا کہ تین چیزیں ایسی ہیں جو کسی گھر میں جب تک رہیں گی، اس وقت تک رحمت کا کوئی فرشتہ وہاں داخل نہ ہوگا، کتا، جنبی آدمی یا کسی جاندار کی تصویر۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ حَدَّثَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ مُدْرِكٍ الْجُعْفِيُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُجَيٍّ الْحَضْرَمِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ لِي عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَتْ لِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْزِلَةٌ لَمْ تَكُنْ لِأَحَدٍ مِنْ الْخَلَائِقِ إِنِّي كُنْتُ آتِيهِ كُلَّ سَحَرٍ فَأُسَلِّمُ عَلَيْهِ حَتَّى يَتَنَحْنَحَ وَإِنِّي جِئْتُ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَقُلْتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ فَقَالَ عَلَى رِسْلِكَ يَا أَبَا حَسَنٍ حَتَّى أَخْرُجَ إِلَيْكَ فَلَمَّا خَرَجَ إِلَيَّ قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَغْضَبَكَ أَحَدٌ قَالَ لَا قُلْتُ فَمَا لَكَ لَا تُكَلِّمُنِي فِيمَا مَضَى حَتَّى كَلَّمْتَنِي اللَّيْلَةَ قَالَ سَمِعْتُ فِي الْحُجْرَةِ حَرَكَةً فَقُلْتُ مَنْ هَذَا فَقَالَ أَنَا جِبْرِيلُ قُلْتُ ادْخُلْ قَالَ لَا اخْرُجْ إِلَيَّ فَلَمَّا خَرَجْتُ قَالَ إِنَّ فِي بَيْتِكَ شَيْئًا لَا يَدْخُلُهُ مَلَكٌ مَا دَامَ فِيهِ قُلْتُ مَا أَعْلَمُهُ يَا جِبْرِيلُ قَالَ اذْهَبْ فَانْظُرْ فَفَتَحْتُ الْبَيْتَ فَلَمْ أَجِدْ فِيهِ شَيْئًا غَيْرَ جَرْوِ كَلْبٍ كَانَ يَلْعَبُ بِهِ الْحَسَنُ قُلْتُ مَا وَجَدْتُ إِلَّا جَرْوًا قَالَ إِنَّهَا ثَلَاثٌ لَنْ يَلِجَ مَلَكٌ مَا دَامَ فِيهَا أَبَدًا وَاحِدٌ مِنْهَا كَلْبٌ أَوْ جَنَابَةٌ أَوْ صُورَةُ رُوحٍ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৬১৩
حضرت علی (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت علی (رض) کی مرویات
عبداللہ بن نجی کے والد ایک مرتبہ حضرت علی (رض) کے ساتھ جا رہے تھے، ان کے ذمے حضرت علی (رض) کے وضو کی خدمت تھی، جب وہ صفین کی طرف جاتے ہوئے نینوی کے قریب پہنچے تو حضرت علی (رض) نے پکار کر فرمایا ابو عبداللہ ! فرات کے کنارے پر رک جاؤ، میں نے پوچھا کہ خیریت ہے ؟ فرمایا میں ایک دن نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش ہو رہی تھی، میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ! کیا کسی نے آپ کو غصہ دلایا، خیر تو ہے کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں ؟ فرمایا ایسی کوئی بات نہیں ہے، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے میرے پاس سے جبرئیل اٹھ کر گئے ہیں، وہ کہہ رہے تھے کہ حسین کو فرات کے کنارے شہید کردیا جائے گا، پھر انہوں نے مجھ سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اس مٹی کی خوشبو سونگھا سکتا ہوں ؟ میں نے انہیں اثبات میں جواب دیا، تو انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر ایک مٹھی بھر کر مٹی اٹھائی اور مجھے دے دی، بس اس وقت سے اپنے آنسؤوں پر مجھے قابو نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ حَدَّثَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ مُدْرِكٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُجَيٍّ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَارَ مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَانَ صَاحِبَ مِطْهَرَتِهِ فَلَمَّا حَاذَى نِينَوَى وَهُوَ مُنْطَلِقٌ إِلَى صِفِّينَ فَنَادَى عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اصْبِرْ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ اصْبِرْ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ بِشَطِّ الْفُرَاتِ قُلْتُ وَمَاذَا قَالَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَعَيْنَاهُ تَفِيضَانِ قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَغْضَبَكَ أَحَدٌ مَا شَأْنُ عَيْنَيْكَ تَفِيضَانِ قَالَ بَلْ قَامَ مِنْ عِنْدِي جِبْرِيلُ قَبْلُ فَحَدَّثَنِي أَنَّ الْحُسَيْنَ يُقْتَلُ بِشَطِّ الْفُرَاتِ قَالَ فَقَالَ هَلْ لَكَ إِلَى أَنْ أُشِمَّكَ مِنْ تُرْبَتِهِ قَالَ قُلْتُ نَعَمْ فَمَدَّ يَدَهُ فَقَبَضَ قَبْضَةً مِنْ تُرَابٍ فَأَعْطَانِيهَا فَلَمْ أَمْلِكْ عَيْنَيَّ أَنْ فَاضَتَا
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৬১৪
حضرت علی (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت علی (رض) کی مرویات
ایک مرتبہ حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں قرآن کریم کی وہ سب سے افضل آیت جو ہمیں نبی ﷺ نے بتائی تھی نہ بتاؤں ؟ وہ آیت یہ ہے، مااصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم و یعفو عن کثیر اور نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ علی ! میں تمہارے سامنے اس کی تفسیر بیان کرتا ہوں، اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں دنیا میں جو بیماری، تکلیف یا آزمائش پیش آتی ہے تو وہ تمہاری اپنی حرکتوں اور کرتوتوں کی وجہ سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے بہت کریم ہے کہ آخرت میں اس کی دوبارہ سزادے اور اللہ نے دنیا میں جس چیز سے درگذر فرمایا ہو، اس کے حلم سے یہ بعید ہے کہ وہ اپنے عفو سے رجوع کرلے۔
حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ أَنْبَأَنَا الْأَزْهَرُ بْنُ رَاشِدٍ الْكَاهِلِيُّ عَنْ الْخَضِرِ بْنِ الْقَوَّاسِ عَنْ أَبِي سُخَيْلَةَ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلِ آيَةٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى حَدَّثَنَا بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ وَسَأُفَسِّرُهَا لَكَ يَا عَلِيُّ مَا أَصَابَكُمْ مِنْ مَرَضٍ أَوْ عُقُوبَةٍ أَوْ بَلَاءٍ فِي الدُّنْيَا فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَاللَّهُ تَعَالَى أَكْرَمُ مِنْ أَنْ يُثَنِّيَ عَلَيْهِمْ الْعُقُوبَةَ فِي الْآخِرَةِ وَمَا عَفَا اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ فِي الدُّنْيَا فَاللَّهُ تَعَالَى أَحْلَمُ مِنْ أَنْ يَعُودَ بَعْدَ عَفْوِهِ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৬১৫
حضرت علی (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت علی (رض) کی مرویات
عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے حضرت علی (رض) سے پوچھا کہ نبی ﷺ دن کے وقت کس طرح نوافل پڑھتے تھے ؟ فرمایا تم اس طرح پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتے، ہم نے عرض کیا آپ بتا دیجئے، ہم اپنی طاقت اور استطاعت کے بقدر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے، فرمایا کہ نبی ﷺ فجر کی نماز پڑھ کر تھوڑی دیر انتظار فرماتے، جب سورج مشرق سے اس مقدار میں نکل آتا جتنا عصر کی نماز کے بعد مغرب کی طرف ہوتا ہے، تو آپ ﷺ کھڑے ہو کردو رکعت نماز پڑھتے۔ پھر تھوڑی دیر انتظار فرماتے اور جب سورج مشرق سے اتنی مقدار میں نکل آتاجتنا کہ ظہر کی نماز کے بعد مغرب کی طرف ہوتا ہے، تو آپ ﷺ کھڑے ہو کر چار رکعت نماز پڑھتے، پھر سورج ڈھلنے کے بعد چار رکعتیں ظہر سے پہلے دو رکعتیں ظہر کے بعد اور چار رکعتیں عصر سے پہلے پڑھتے تھے اور ہر دو رکعتوں میں ملائکہ مقربین، انبیاء کرام (علیہم السلام) اور ان کی پیروی کرنے والے مسلمانوں اور مومنین کے لئے سلام کے کلمات کہتے (تشہد پڑھتے) اس اعتبار سے پورے دن میں نبی ﷺ کے نوافل کی یہ سولہ رکعتیں ہوئیں، لیکن ان پر دوام کرنے والے بہت کم ہیں، یہ حدیث بیان کر کے حبیب بن ابی ثابت نے کہا کہ اے ابو اسحاق ! آپ کی یہ حدیث اس مسجد کے سونے سے بھرپور ہونے کے اعتبار سے برابر ہے۔ حدیث نمبر ٦٥٠ یہاں اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ وَإِسْرَائِيلُ وَأَبِي عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ قَالَ سَأَلْنَا عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ تَطَوُّعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّهَارِ فَقَالَ إِنَّكُمْ لَا تُطِيقُونَهُ قَالَ قُلْنَا أَخْبِرْنَا بِهِ نَأْخُذْ مِنْهُ مَا أَطَقْنَا قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى الْفَجْرَ أَمْهَلَ حَتَّى إِذَا كَانَتْ الشَّمْسُ مِنْ هَا هُنَا يَعْنِي مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مِقْدَارُهَا مِنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ مِنْ هَاهُنَا مِنْ قِبَلِ الْمَغْرِبِ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ يُمْهِلُ حَتَّى إِذَا كَانَتْ الشَّمْسُ مِنْ هَاهُنَا يَعْنِي مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مِقْدَارُهَا مِنْ صَلَاةِ الظُّهْرِ مِنْ هَاهُنَا يَعْنِي مِنْ قِبَلِ الْمَغْرِبِ قَامَ فَصَلَّى أَرْبَعًا وَأَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ إِذَا زَالَتْ الشَّمْسُ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا وَأَرْبَعًا قَبْلَ الْعَصْرِ يَفْصِلُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ بِالتَّسْلِيمِ عَلَى الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ وَالنَّبِيِّينَ وَمَنْ تَبِعَهُمْ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تِلْكَ سِتَّ عَشْرَةَ رَكْعَةً تَطَوُّعُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّهَارِ وَقَلَّ مَنْ يُدَاوِمُ عَلَيْهَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ لَأَبِي إِسْحَاقَ حِينَ حَدَّثَهُ يَا أَبَا إِسْحَاقَ يَسْوَى حَدِيثُكَ هَذَا مِلْءَ مَسْجِدِكَ ذَهَبًا
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৬১৬
حضرت علی (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت علی (رض) کی مرویات
حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ رات کے ابتدائی، درمیانے اور آخری ہر حصے میں وتر پڑھ لیا کرتے تھے، تاہم آخر میں آپ ﷺ رات کے آخری حصے میں اس کی پابندی فرمانے لگے تھے۔
حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ وَحُسَيْنٌ قَالَا حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنِ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ مِنْ كُلِّ اللَّيْلِ قَدْ أَوْتَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَوَّلِهِ وَأَوْسَطِهِ وَآخِرِهِ فَثَبَتَ الْوَتْرُ آخِرَ اللَّيْلِ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৬১৭
حضرت علی (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت علی (رض) کی مرویات
حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ وتر فرض نماز کی طرح قرآن کریم سے حتمی ثبوت نہیں رکھتے لیکن ان کا وجوب نبی ﷺ کی سنت سے ثابت ہے۔
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ الْوَتْرُ لَيْسَ بِحَتْمٍ مِثْلَ الصَّلَاةِ وَلَكِنَّهُ سُنَّةٌ سَنَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৬১৮
حضرت علی (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت علی (رض) کی مرویات
حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ رات کے ابتدائی، درمیانے اور آخری ہر حصے میں وتر پڑھ لیا کرتے تھے، تاہم آخر میں آپ ﷺ رات کے آخری حصے میں اس کی پابندی فرمانے لگے تھے۔
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَوْتَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ وَآخِرِهِ وَأَوْسَطِهِ فَانْتَهَى وِتْرُهُ إِلَى السَّحَرِ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৬১৯
حضرت علی (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت علی (رض) کی مرویات
حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن ہم لوگ نبی ﷺ کی پناہ میں آجاتے تھے، نبی ﷺ ہماری نسبت دشمن سے زیادہ قریب تھے اور اس دن نبی ﷺ نے سب سے زیادہ سخت جنگ کی تھی۔
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَقَدْ رَأَيْتُنَا يَوْمَ بَدْرٍ وَنَحْنُ نَلُوذُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ أَقْرَبُنَا إِلَى الْعَدُوِّ وَكَانَ مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ يَوْمَئِذٍ بَأْسًا
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৬২০
حضرت علی (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت علی (رض) کی مرویات
حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک دیہاتی نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ سوال پوچھا کہ یا رسول اللہ ! ہم لوگ دیہات میں رہتے ہیں یہ بتائیے کہ اگر ہم میں سے کسی کی ہوا خارج ہوجائے تو وہ کیا کرے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حق بات سے نہیں شرماتے (اس لئے میں بھی تم سے بلاتکلف کہتا ہوں کہ ایسی صورت میں) اسے وضو کرلینا چاہیے اور یاد رکھو ! عورت کے ساتھ اس کی دبر میں مباشرت نہ کرنا۔
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مُسْلِمٍ الْحَنَفِيُّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَكُونُ بِالْبَادِيَةِ فَتَخْرُجُ مِنْ أَحَدِنَا الرُّوَيْحَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَسْتَحْيِي مِنْ الْحَقِّ إِذَا فَعَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَتَوَضَّأْ وَلَا تَأْتُوا النِّسَاءَ فِي أَعْجَازِهِنَّ وَقَالَ مَرَّةً فِي أَدْبَارِهِنَّ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৬২১
حضرت علی (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت علی (رض) کی مرویات
عبیداللہ بن عیاض کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کی شہادت کے چند روز بعد حضرت عبداللہ بن شداد (رض) عراق سے واپس آکر حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت ہم لوگ حضرت عائشہ (رض) کے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے، حضرت عائشہ (رض) نے ان سے فرمایا عبداللہ ! میں تم سے جو پوچھوں گی، اس کا صحیح جواب دوگے ؟ کیا تم مجھے ان لوگوں کے بارے بتاسکتے ہو جنہوں نے حضرت علی (رض) کو شہید کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میں آپ سے سچ کیوں نہیں بولوں گا، فرمایا کہ پھر مجھے ان کا قصہ سناؤ۔ حضرت عبداللہ بن شداد (رض) کہنے لگے کہ جب حضرت علی (رض) نے حضرت امیر معاویہ (رض) سے خط و کتابت شروع کی اور دونوں ثالثوں نے اپنا اپنا فیصلہ سنادیا، تو آٹھ ہزار لوگ جنہیں قراء کہا جاتا تھا، نکل کر کوفہ کے ایک طرف حروراء نامی علاقے میں چلے گئے، وہ لوگ حضرت علی (رض) سے ناراض ہوگئے تھے اور ان کا یہ کہنا تھا کہ اللہ نے آپ کو جو قمیص پہنائی تھی، آپ نے اسے اتار دیا اور اللہ نے آپ کو جو نام عطاء کیا تھا آپ نے اسے اپنے آپ سے دور کردیا، پھر آپ نے جاکر دین کے معاملے ثالث کو قبول کرلیا، حالانکہ حکم تو صرف اللہ کا ہی چلتا ہے۔ حضرت علی (رض) کو جب یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ لوگ ان سے ناراض ہو کر جدا ہوگئے ہیں تو انہوں نے منادی کو یہ نداء لگانے کا حکم دیا کہ امیرالمومنین کے پاس صرف وہی شخص آئے جس نے قرآن کریم اٹھا رکھا ہو، جب ان کا گھر قرآن پڑھنے والوں سے بھر گیا تو انہوں نے قرآن کریم کا ایک بڑا نسخہ منگوا کر اپنے سامنے رکھا اور اسے اپنے ہاتھ سے ہلاتے ہوئے کہنے لگے اے قرآن ! لوگوں کو بتا، یہ دیکھ کر لوگ کہنے لگے امیرالمومنین ! آپ اس نسخے سے کیا پوچھ رہے ہیں ؟ یہ تو کاغذ میں روشنائی ہے، ہاں ! اس کے حوالے ہم تک جو احکام پہنچے ہیں وہ ہم ایک دوسرے سے بیان کرتے ہیں، آپ کا اس سے مقصد کیا ہے ؟ فرمایا تمہارے یہ ساتھی جو ہم سے جدا ہو کر چلے گئے ہیں، میرے اور ان کے درمیان قرآن کریم ہی فیصلہ کرے گا، اللہ تعالیٰ خود قرآن کریم میں میاں بیوی کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ اگر تمہیں ان دونوں کے درمیان ناچاقی کا اندیشہ ہو تو ایک ثالث مرد کی طرف سے اور ایک ثالث عورت کے اہل خانہ کی طرف سے بھیجو، اگر ان کی نیت محض اصلاح کی ہوئی تو اللہ ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا فرما دے گا، میرا خیال ہے کہ ایک آدمی اور ایک عورت کی نسبت پوری امت کا خون اور حرمت زیادہ اہم ہے (اس لئے اگر میں نے اس معاملہ میں ثالثی کو قبول کیا تو کونسا گناہ کیا ؟ ) اور انہیں اس بات پر جو غصہ ہے کہ میں نے حضرت امیر معاویہ (رض) کے ساتھ خط و کتاب کی ہے ( تو حضرت امیر معاویہ (رض) تو پھر مسلمان اور صحابی ہیں) جب ہم نبی ﷺ کے ساتھ حدیبیہ میں تھے اور سہیل بن عمرو ہمارے پاس آیا تھا اور نبی ﷺ نے اپنی قوم قریش سے صلح کی تھی تو اس وقت نبی ﷺ نے مجھ سے ہی لکھوایا تھا، بسم اللہ الرحمن الرحیم، اس پر سہیل نے کہا کہ آپ اس طرح مت لکھوائیے ؟ نی ﷺ نے فرمایا پھر کس طرح لکھوائیں ؟ اس نے کہا کہ آپ باسمک اللہم لکھیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے اپنا نام محمد رسول اللہ لکھوایا تو اس نے کہا کہ اگر میں آپ کو اللہ کا پیغمبر مانتا تو کبھی آپ کی مخالفت نہ کرتا، چناچہ نبی ﷺ نے یہ الفاظ لکھوائے ہذا ماصالح محمد بن عبداللہ قریشا اور اللہ فرماتا ہے کہ پیغمبر اللہ ﷺ کی ذات میں تمہارے لئے بہترین نمونہ موجود ہے (میں نے تو اس نمونے کی پیروی کی ہے) اس کے بعد حضرت علی (رض) نے ابن عباس (رض) کو ان کے پاس سمجھانے کے لئے بھیجا، راوی کہتے ہیں کہ میں بھی ان کے ساتھ گیا تھا، جب ہم ان کے وسط لشکر میں پہنچے تو ابن الکواء نامی ایک شخص لوگوں کے سامنے تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اے حاملین قرآن ! یہ عبداللہ بن عباس (رض) آئے ہیں، جو شخص انہیں نہ جانتا ہو، میں اس کے سامنے ان کا تعارف قرآن کریم سے پیش کر دیتاہوں، یہ وہی ہیں کہ ان کے اور ان کی قوم کے بارے میں قرآن کریم میں قوم خصمون، یعنی جھگڑالو قوم کا لفظ وارد ہوا ہے، اس لئے انہیں ان کے ساتھی یعنی حضرت علی (رض) کے پاس واپس بھیج دو اور کتاب اللہ کو ان کے سامنے مت بچھاؤ۔ یہ سن کر ان کے خطباء کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ بخدا ! ہم تو ان کے سامنے کتاب اللہ کو پیش کریں گے، اگر یہ حق بات لے کر آئے ہیں تو ہم ان کی پیروی کریں گے اور اگر یہ باطل لے کر آئے ہیں تو ہم اس باطل کو خاموش کرا دیں گے، چناچہ تین دن تک وہ لوگ کتاب اللہ کو سامنے رکھ کر حضرت ابن عباس (رض) سے مناظرہ کرتے رہے، جس کے نتیجے میں ان میں سے چار ہزار لوگ اپنے عقائد سے رجوع کر کے توبہ تائب ہو کر واپس آگئے، جن میں خود ابن الکواء بھی شامل تھا اور یہ سب کے سب حضرت علی (رض) کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ اس کے بعد حضرت علی (رض) نے بقیہ افراد کی طرف قاصد کے ذریعے یہ پیغام بھجوا دیا کہ ہمارا اور ان لوگوں کا جو معاملہ ہوا وہ تم نے دیکھ لیا، اب تم جہاں چاہو ٹھہرو، تاآنکہ امت مسلمہ متفق ہوجائے، ہمارے اور تمہارے درمیان یہ معاہدہ ہے کہ تم ناحق کسی کا خون نہ بہاؤ، ڈاکے نہ ڈالو اور ذمیوں پر ظلم وستم نہ ڈھاؤ، اگر تم نے ایسا کیا تو ہم تم پر جنگ مسلط کردیں گے کیونکہ اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ یہ ساری روئیداد سن کر حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا ابن شداد ! کیا انہوں نے پھر قتال کیا ان لوگوں سے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم ! حضرت علی (رض) نے اس وقت تک ان کے پاس اپنا کوئی لشکر نہیں بھیجا جب تک انہوں نے مذکورہ معاہدے کو ختم نہ کردیا انہوں نے ڈاکے دالے، لوگوں کا خون ناحق بہایا اور ذمیوں پر دست درازی کو حلال سمجھا، حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کیا بخدا ! ایسا ہی ہوا ہے ؟ انہوں نے کہا جی ہاں ! اس اللہ کی قسم ! جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، ایسا ہی ہوا ہے۔ پھر حضرت عائشہ (رض) نے پوچھا کہ اس بات کی کیا حقیقت ہے جو مجھ تک اہل عراق کے ذریعے پہنچی ہے کہ ذوالثدی نامی کوئی شخص تھا ؟ حضرت عبداللہ بن شداد (رض) نے کہا کہ میں نے خود اس شخص کو دیکھا ہے اور مقتولین میں اس کی لاش پر حضرت علی (رض) کے ساتھ کھڑا بھی ہوا ہوں اس موقع پر حضرت علی (رض) نے لوگوں کو بلا کر پوچھا تھا کیا تم اس شخص کو جانتے ہو ؟ اکثر لوگوں نے یہی کہا کہ میں نے اسے فلاں محلے کی مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، میں نے اسے فلاں محلے کی مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، کوئی مضبوط بات جس سے اس کی پہچان ہوسکتی، وہ لوگ نہ بتاسکے۔ حضرت عائشہ (رض) نے پوچھا کہ جب حضرت علی (رض) اس کی لاش کے پاس کھڑے تھے تو انہوں نے کیا وہی بات کہی تھی جو اہل عراق بیان کرتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت علی (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا : حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ آپ نے اس کے علاوہ بھی ان کے منہ سے کوئی بات سنی ؟ انہوں نے کہا بخدا ! نہیں، فرمایا اچھا ٹھیک ہے، اللہ علی پر رحم فرمائے، یہ ان کا تکیہ کلام ہے، یہی وجہ ہے کہ انہیں جب بھی کوئی چیز اچھی یا تعجب خیز معلوم ہوتی ہے تو وہ یہی کہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا اور اہل عراق ان کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرنا شروع کردیتے ہیں اور اپنی طرف سے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى الطَّبَّاعُ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عِيَاضِ بْنِ عَمْرٍو الْقَارِيِّ قَالَ جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَدَّادٍ فَدَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَنَحْنُ عِنْدَهَا جُلُوسٌ مَرْجِعَهُ مِنْ الْعِرَاقِ لَيَالِيَ قُتِلَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَتْ لَهُ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ شَدَّادٍ هَلْ أَنْتَ صَادِقِي عَمَّا أَسْأَلُكَ عَنْهُ تُحَدِّثُنِي عَنْ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ الَّذِينَ قَتَلَهُمْ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ وَمَا لِي لَا أَصْدُقُكِ قَالَتْ فَحَدِّثْنِي عَنْ قِصَّتِهِمْ قَالَ فَإِنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَمَّا كَاتَبَ مُعَاوِيَةَ وَحَكَمَ الْحَكَمَانِ خَرَجَ عَلَيْهِ ثَمَانِيَةُ آلَافٍ مِنْ قُرَّاءِ النَّاسِ فَنَزَلُوا بِأَرْضٍ يُقَالُ لَهَا حَرُورَاءُ مِنْ جَانِبِ الْكُوفَةِ وَإِنَّهُمْ عَتَبُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا انْسَلَخْتَ مِنْ قَمِيصٍ أَلْبَسَكَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَاسْمٍ سَمَّاكَ اللَّهُ تَعَالَى بِهِ ثُمَّ انْطَلَقْتَ فَحَكَّمْتَ فِي دِينِ اللَّهِ فَلَا حُكْمَ إِلَّا لِلَّهِ تَعَالَى فَلَمَّا أَنْ بَلَغَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا عَتَبُوا عَلَيْهِ وَفَارَقُوهُ عَلَيْهِ فَأَمَرَ مُؤَذِّنًا فَأَذَّنَ أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ إِلَّا رَجُلٌ قَدْ حَمَلَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا أَنْ امْتَلَأَتْ الدَّارُ مِنْ قُرَّاءِ النَّاسِ دَعَا بِمُصْحَفٍ إِمَامٍ عَظِيمٍ فَوَضَعَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَجَعَلَ يَصُكُّهُ بِيَدِهِ وَيَقُولُ أَيُّهَا الْمُصْحَفُ حَدِّثْ النَّاسَ فَنَادَاهُ النَّاسُ فَقَالُوا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَا تَسْأَلُ عَنْهُ إِنَّمَا هُوَ مِدَادٌ فِي وَرَقٍ وَنَحْنُ نَتَكَلَّمُ بِمَا رُوِينَا مِنْهُ فَمَاذَا تُرِيدُ قَالَ أَصْحَابُكُمْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ خَرَجُوا بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ كِتَابُ اللَّهِ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ فِي امْرَأَةٍ وَرَجُلٍ وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقْ اللَّهُ بَيْنَهُمَا فَأُمَّةُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْظَمُ دَمًا وَحُرْمَةً مِنْ امْرَأَةٍ وَرَجُلٍ وَنَقَمُوا عَلَيَّ أَنْ كَاتَبْتُ مُعَاوِيَةَ كَتَبَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَقَدْ جَاءَنَا سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَيْبِيَةِ حِينَ صَالَحَ قَوْمَهُ قُرَيْشًا فَكَتَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فَقَالَ سُهَيْلٌ لَا تَكْتُبْ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فَقَالَ كَيْفَ نَكْتُبُ فَقَالَ اكْتُبْ بِاسْمِكَ اللَّهُمَّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاكْتُبْ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ فَقَالَ لَوْ أَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ لَمْ أُخَالِفْكَ فَكَتَبَ هَذَا مَا صَالَحَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قُرَيْشًا يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ عَلِيٌّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَخَرَجْتُ مَعَهُ حَتَّى إِذَا تَوَسَّطْنَا عَسْكَرَهُمْ قَامَ ابْنُ الْكَوَّاءِ يَخْطُبُ النَّاسَ فَقَالَ يَا حَمَلَةَ الْقُرْآنِ إِنَّ هَذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمَنْ لَمْ يَكُنْ يَعْرِفُهُ فَأَنَا أُعَرِّفُهُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ مَا يَعْرِفُهُ بِهِ هَذَا مِمَّنْ نَزَلَ فِيهِ وَفِي قَوْمِهِ قَوْمٌ خَصِمُونَ فَرُدُّوهُ إِلَى صَاحِبِهِ وَلَا تُوَاضِعُوهُ كِتَابَ اللَّهِ فَقَامَ خُطَبَاؤُهُمْ فَقَالُوا وَاللَّهِ لَنُوَاضِعَنَّهُ كِتَابَ اللَّهِ فَإِنْ جَاءَ بِحَقٍّ نَعْرِفُهُ لَنَتَّبِعَنَّهُ وَإِنْ جَاءَ بِبَاطِلٍ لَنُبَكِّتَنَّهُ بِبَاطِلِهِ فَوَاضَعُوا عَبْدَ اللَّهِ الْكِتَابَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَرَجَعَ مِنْهُمْ أَرْبَعَةُ آلَافٍ كُلُّهُمْ تَائِبٌ فِيهِمْ ابْنُ الْكَوَّاءِ حَتَّى أَدْخَلَهُمْ عَلَى عَلِيٍّ الْكُوفَةَ فَبَعَثَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى بَقِيَّتِهِمْ فَقَالَ قَدْ كَانَ مِنْ أَمْرِنَا وَأَمْرِ النَّاسِ مَا قَدْ رَأَيْتُمْ فَقِفُوا حَيْثُ شِئْتُمْ حَتَّى تَجْتَمِعَ أُمَّةُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لَا تَسْفِكُوا دَمًا حَرَامًا أَوْ تَقْطَعُوا سَبِيلًا أَوْ تَظْلِمُوا ذِمَّةً فَإِنَّكُمْ إِنْ فَعَلْتُمْ فَقَدْ نَبَذْنَا إِلَيْكُمْ الْحَرْبَ عَلَى سَوَاءٍ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا يَا ابْنَ شَدَّادٍ فَقَدْ قَتَلَهُمْ فَقَالَ وَاللَّهِ مَا بَعَثَ إِلَيْهِمْ حَتَّى قَطَعُوا السَّبِيلَ وَسَفَكُوا الدَّمَ وَاسْتَحَلُّوا أَهْلَ الذِّمَّةِ فَقَالَتْ أَاللَّهِ قَالَ أَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَقَدْ كَانَ قَالَتْ فَمَا شَيْءٌ بَلَغَنِي عَنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ يَتَحَدَّثُونَهُ يَقُولُونَ ذُو الثُّدَيِّ وَذُو الثُّدَيِّ قَالَ قَدْ رَأَيْتُهُ وَقُمْتُ مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَيْهِ فِي الْقَتْلَى فَدَعَا النَّاسَ فَقَالَ أَتَعْرِفُونَ هَذَا فَمَا أَكْثَرَ مَنْ جَاءَ يَقُولُ قَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَسْجِدِ بَنِي فُلَانٍ يُصَلِّي وَرَأَيْتُهُ فِي مَسْجِدِ بَنِي فُلَانٍ يُصَلِّي وَلَمْ يَأْتُوا فِيهِ بِثَبَتٍ يُعْرَفُ إِلَّا ذَلِكَ قَالَتْ فَمَا قَوْلُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ قَامَ عَلَيْهِ كَمَا يَزْعُمُ أَهْلُ الْعِرَاقِ قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ قَالَتْ هَلْ سَمِعْتَ مِنْهُ أَنَّهُ قَالَ غَيْرَ ذَلِكَ قَالَ اللَّهُمَّ لَا قَالَتْ أَجَلْ صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ يَرْحَمُ اللَّهُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّهُ كَانَ مِنْ كَلَامِهِ لَا يَرَى شَيْئًا يُعْجِبُهُ إِلَّا قَالَ صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ فَيَذْهَبُ أَهْلُ الْعِرَاقِ يَكْذِبُونَ عَلَيْهِ وَيَزِيدُونَ عَلَيْهِ فِي الْحَدِيثِ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৬২২
حضرت علی (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت علی (رض) کی مرویات
حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ ایک جنازے میں شریک تھے، اس موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کون شخص مدینہ منورہ جائے گا کہ وہاں جا کر کوئی بت ایسا نہ چھوڑے جسے اس نے توڑ نہ دیا ہو، کوئی قبر ایسی نہ چھوڑے جسے برابر نہ کردیا اور کوئی تصویر ایسی نہ دیکھے جس پر گارا اور کیچڑ نہ مل دے ؟ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں یہ کام کروں گا، چناچہ وہ آدمی روانہ ہوگیا، لیکن جب مدینہ منورہ پہنچا تو وہ اہل مدینہ سے مرعوب ہو کر واپس لوٹ آیا۔ یہ دیکھ کر حضرت علی (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں جاتا ہوں نبی ﷺ نے انہیں اجازت دے دی، چناچہ جب وہ واپس آئے تو عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نے جہاں بھی کسی نوعیت کا بت پایا اسے توڑ دیا، جو قبر بھی نظر آئی اسے برابر کردیا اور جو تصویر بھی دکھائی دی اس پر کیچڑ ڈال دیا، اس کے بعد نبی ﷺ نے فرمایا اب جو شخص ان کاموں میں سے کوئی کام دوبارہ کرے گا گویا وہ محمد ﷺ پر نازل کردہ وحی کا انکار کرتا ہے، نیزیہ بھی فرمایا کہ تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے یا شیخی خورے مت بننا، صرف خیر ہی کے تاجر بننا، کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جن پر صرف عمل کے ذریعے ہی سبقت لے جانا ممکن ہے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ عَنْ شُعْبَةَ عَنِ الْحَكَمِ عَنِ أَبِي مُحَمَّدٍ الْهُذَلِيِّ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةٍ فَقَالَ أَيُّكُمْ يَنْطَلِقُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلَا يَدَعُ بِهَا وَثَنًا إِلَّا كَسَرَهُ وَلَا قَبْرًا إِلَّا سَوَّاهُ وَلَا صُورَةً إِلَّا لَطَّخَهَا فَقَالَ رَجُلٌ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَانْطَلَقَ فَهَابَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ فَرَجَعَ فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا أَنْطَلِقُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَانْطَلِقْ فَانْطَلَقَ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَمْ أَدَعْ بِهَا وَثَنًا إِلَّا كَسَرْتُهُ وَلَا قَبْرًا إِلَّا سَوَّيْتُهُ وَلَا صُورَةً إِلَّا لَطَّخْتُهَا ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ عَادَ لِصَنْعَةِ شَيْءٍ مِنْ هَذَا فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ لَا تَكُونَنَّ فَتَّانًا وَلَا مُخْتَالًا وَلَا تَاجِرًا إِلَّا تَاجِرَ الْخَيْرِ فَإِنَّ أُولَئِكَ هُمْ الْمَسْبُوقُونَ بِالْعَمَلِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنِ الْحَكَمِ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ قَالَ وَيُكَنُّونَهُ أَهْلُ الْبَصْرَةِ أَبَا مُوَرِّعٍ قَالَ وَأَهْلُ الْكُوفَةِ يُكَنُّونَهُ بِأَبِي مُحَمَّدٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةٍ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ وَلَمْ يَقُلْ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَقَالَ وَلَا صُورَةً إِلَّا طَلَخَهَا فَقَالَ مَا أَتَيْتُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ حَتَّى لَمْ أَدَعْ صُورَةً إِلَّا طَلَخْتُهَا وَقَالَ لَا تَكُنْ فَتَّانًا وَلَا مُخْتَالًا
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৬২৩
حضرت علی (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت علی (رض) کی مرویات
حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ اذان فجر کے قریب وتر ادا فرماتے تھے اور اقامت کے قریب فجر کی سنتیں پڑھتے تھے۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنِ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كَانَ يُوتِرُ عِنْدَ الْأَذَانِ وَيُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ عِنْدَ الْإِقَامَةِ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৬২৪
حضرت علی (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت علی (رض) کی مرویات
حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے سود خور، سود کھلانے والا، سودی معاملات لکھنے والا، سودی معاملات کے گواہ، حلالہ کرنے والا، حلالہ کروانے والا، زکوٰۃ روکنے والا، جسم گودنے والی اور جسم گدوانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے اور نبی ﷺ نوحہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔
حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ يَعْنِي الرَّازِيَّ عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنِ الْحَارِثِ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا شَكَّ إِلَّا أَنَّهُ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَكَاتِبَهُ وَالْوَاشِمَةَ وَالْمُسْتَوْشِمَةَ وَالْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ وَمَانِعَ الصَّدَقَةِ وَكَانَ يَنْهَى عَنْ النَّوْحِ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৬২৫
حضرت علی (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت علی (رض) کی مرویات
حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا علی ! اگر میرے بعد کسی بھی وقت زمام حکومت تمہارے ہاتھ میں آئے تو اہل نجران کو جزیرہ عرب سے نکال دینا۔
حَدَّثَنَا خَلَفٌ حَدَّثَنَا قَيْسٌ عَنِ الْأَشْعَثِ بْنِ سَوَّارٍ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا عَلِيُّ إِنْ أَنْتَ وُلِّيتَ الْأَمْرَ بَعْدِي فَأَخْرِجْ أَهْلَ نَجْرَانَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৬২৬
حضرت علی (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت علی (رض) کی مرویات
حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے خروج مذی کثرت کے ساتھ ہونے کا مرض لاحق تھا، میں نے نبی ﷺ سے اس کا حکم پوچھا تو فرمایا منیٰ سے تو غسل واجب ہے اور مذی میں صرف وضو واجب ہے۔
حَدَّثَنَا خَلَفٌ حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ يَعْنِي الرَّازِيَّ وَخَالِدٌ يَعْنِي الطَّحَّانَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنْتُ رَجُلًا مَذَّاءً فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَمَّا الْمَنِيُّ فَفِيهِ الْغُسْلُ وَأَمَّا الْمَذْيُ فَفِيهِ الْوُضُوءُ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৬২৭
حضرت علی (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت علی (رض) کی مرویات
حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص عشاء سے پہلے یا بعد میں تلاوت کرتے ہوئے اپنی آواز کو بلند کرے، کیونکہ اس طرح اس کے دوسرے ساتھیوں کو نماز پڑھتے ہوئے مغالطہ ہوسکتا ہے۔
حَدَّثَنَا خَلَفٌ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنِ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَنْ يَرْفَعَ الرَّجُلُ صَوْتَهُ بِالْقِرَاءَةِ قَبْلَ الْعِشَاءِ وَبَعْدَهَا يُغَلِّطُ أَصْحَابَهُ وَهُمْ يُصَلُّونَ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৬২৮
حضرت علی (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت علی (رض) کی مرویات
حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ سے ہدایت اور درستگی کی درخواست کیا کرو اور ہدایت سے راستے کی ہدایت ذہن میں رکھا کرو اور درستگی کا معنی مراد لیتے وقت تیر کی درستگی اور سیدھاپن یاد رکھا کرو۔
حَدَّثَنَا خَلَفٌ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَلْ اللَّهَ تَعَالَى الْهُدَى وَالسَّدَادَ وَاذْكُرْ بِالْهُدَى هِدَايَتَكَ الطَّرِيقَ وَاذْكُرْ بِالسَّدَادِ تَسْدِيدَكَ السَّهْمَ
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৬২৯
حضرت علی (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت علی (رض) کی مرویات
حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مجھ سے پہلے جتنے بھی انبیاء کرام (علیہم السلام) تشریف لائے ہیں ان میں سے ہر ایک کو سات نقباء، وزراء، نجباء دیئے گئے جب کہ مجھے خصوصیت کے ساتھ چودہ وزراء، نقباء، نجباء دیئے گئے ہیں جن میں سے سات کا تعلق صرف قریش سے ہے اور باقی سات کا تعلق دیگر مہاجرین سے ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ قَالَ عَبْد اللَّهِ وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّا عَنْ كَثِيرٍ النَّوَّاءِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُلَيْلٍ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَيْسَ مِنْ نَبِيٍّ كَانَ قَبْلِي إِلَّا قَدْ أُعْطِيَ سَبْعَةَ نُقَبَاءَ وُزَرَاءَ نُجَبَاءَ وَإِنِّي أُعْطِيتُ أَرْبَعَةَ عَشَرَ وَزِيرًا نَقِيبًا نَجِيبًا سَبْعَةً مِنْ قُرَيْشٍ وَسَبْعَةً مِنْ الْمُهَاجِرِينَ
tahqiq

তাহকীক: