মা'আরিফুল হাদীস (উর্দু)
کتاب المناقب والفضائل
হাদীস নং: ২০৩৭
فضائل حضرت عثمان ذو النورین
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ (میرے والد حضرت) ابو بکرؓ نے (کسی ضرورت سے) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت چاہی ایسے حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے بستر پر میری چادر اوڑھے لیٹے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اندر آنے کی اجازت دلوا دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح لیٹے ہوئے تھے اسی طرح لیٹے رہے (ابو بکرؓ آئے) اور جو ضروری بات ان کو کرنا تھی کر کے چلے گئے ۔ پھر (حضرت)عمرؓ (کسی ضرورت سے) آئے اور اندر آنے کی اجازت چاہی ، ان کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دلوا دی (وہ آئے) اور آپ اسی حالت میں رہے (یعنی جس طرح میرے بستر پر میری چادر اوڑھے لیٹے ہوئے تھے اسی طرح لیٹے رہے) پھر وہ بھی اپنی ضرورت پوری کر کے چلے گئے پھر (حضرت) عثمانؓ نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سنبھل کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑوں کو اچھی طرح درست فرما لیا اور مجھ سے فرمایا کہ تم بھی اپنے کپڑے (چادر وغیرہ) پوری طرح اوڑھ لو ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آنے کی اجازت دلوا دی (وہ آپ کے پاس آ گئے) اور جو ضروری بات کرنے کے لئے آئے تھے کر کے چلے گئے (حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضرت عثمانؓ کے جانے کے بعد) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا اہتمام (حضرت) عثمانؓ کے لئے کیا ویسا اہتمام ابو بکرؓ اور عمرؓ کے لئے کیا ہو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عثمان ایسے آدمی ہیں کہ ان پر (فطری طور پر) صفت حیا کا غلبہ ہے مجھے اس کا اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے ان کو ایسی حالت میں بلا لیا جس میں میں تھا (کہ تمہاری چادر اوڑھے لیٹا ہوا تھا) تو وہ (فرط حیا کی وجہ سے جلدی واپس چلے جائیں) اور وہ ضروری بات نہ کر سکیں جس کے لئے وہ آئے تھے (اس لئے میں نے ان کے لئے وہ اہتمام کیا جو تم نے دیکھا) ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
متن حدیث کی ضروری تشریح ترجمہ کے ضمن ہی میں کر دی گئی ہے ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر صفت حیاء کا کس قدر غلبہ تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کس قدر لحاظ فرماتے تھے ۔
صحیح مسلم کی اسی حدیث کی ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ کے سوال کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “اَلَا اَسْتَحْىِ مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحْىِ مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ” (کیا میں ایسے بندہ خدا کا لحاظ نہ کروں جس کا فرشتے بھی لحاظ کرتے ہیں) ۔
یہاں ایک بات یہ بھی قابل ذکر ہے کہ بظاہر یہ واقعہ اس زمانے کا ہے کہ حجاب (یعنی پردہ) کا حکم نازل نہیں ہوا تھا کیونکہ حضرت عمرؓ ، بھی حضرت صدیقہؓ کے لئے غیر محرم تھے ، ان کے آنے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اچھی طرح کپڑے اوڑھ لینے کا وہ حکم نہیں فرمایا جو حضرت عثمانؓ کے آنے پر فرمایا ۔
تشریح
متن حدیث کی ضروری تشریح ترجمہ کے ضمن ہی میں کر دی گئی ہے ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر صفت حیاء کا کس قدر غلبہ تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کس قدر لحاظ فرماتے تھے ۔
صحیح مسلم کی اسی حدیث کی ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ کے سوال کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “اَلَا اَسْتَحْىِ مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحْىِ مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ” (کیا میں ایسے بندہ خدا کا لحاظ نہ کروں جس کا فرشتے بھی لحاظ کرتے ہیں) ۔
یہاں ایک بات یہ بھی قابل ذکر ہے کہ بظاہر یہ واقعہ اس زمانے کا ہے کہ حجاب (یعنی پردہ) کا حکم نازل نہیں ہوا تھا کیونکہ حضرت عمرؓ ، بھی حضرت صدیقہؓ کے لئے غیر محرم تھے ، ان کے آنے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اچھی طرح کپڑے اوڑھ لینے کا وہ حکم نہیں فرمایا جو حضرت عثمانؓ کے آنے پر فرمایا ۔
عَنْ عَائِشَةَ اسْتَأْذَنَ أَبُوْ بَكْرٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَى فِرَاشِىْ، عَلَيْهِ مِرْطٌ لِىْ، فَأَذِنَ لَهُ وَهُوَ عَلَى حَالِهِ، فَقَضَى إِلَيْهِ حَاجَتَهُ، ثُمَّ انْصَرَفَ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ، فَأَذِنَ لَهُ وَهُوَ عَلَى تِلْكَ الْحَالَةِ فَقَضَى إِلَيْهِ حَاجَتَهُ، ثُمَّ انْصَرَفَ،: ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُثْمَانُ فَجَلَسَ وَاَصْلَحَ عَلَيْهِ ثِيَابَهُ، وَقَالَ: «اجْمَعِي عَلَيْكِ ثِيَابَكِ» فَقَضَى إِلَيْهِ حَاجَتَهُ، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ لَمْ أَرَكَ فَزِعْتَ لِأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، كَمَا فَزِعْتَ لِعُثْمَانَ؟ فَقَالَ يَا عَائِشَةُ «إِنَّ عُثْمَانَ رَجُلٌ حَيِيٌّ، وَإِنِّي خَشِيتُ، إِنْ أَذِنْتُ لَهُ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ، أَنْ لَا يَبْلُغَ إِلَيَّ فِي حَاجَتِهِ» وَفِىْ رِوَايَةٍ قَالَ لَهَا اَلَا اَسْتَحْىِ مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحْىِ مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ. (رواه مسلم)
