মা'আরিফুল হাদীস (উর্দু)
کتاب المناقب والفضائل
হাদীস নং: ১৯৮৮
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا نہ کسی عورت کو نہ کسی خادم کو ، البتہ جہاد فی سبیل اللہ کے سلسلہ میں ضرور ایسا ہوا ہے ..... اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی شخص کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچانے والی کوئی حرکت کی گئی ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے انتقام لیا ہو ، (بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذاتی معاملات میں معافی اور درگزر ہی کا معاملہ فرماتے تھے (البتہ اگر کسی شخص کی طرف سے کسی فعل حرام کا ارتکاب کیا جاتا تو آپ اللہ کے لئے (یعنی فرمان خداوندی کی تعمیل میں) اس مجرم کو سزا دیتے (یا سزا دینے کا حکم فرماتے) تھے ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
ام المومنین حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق دو باتیں بیان فرمائی ہیں ۔ ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کی غلطی یا بےتمیزی پر غصہ ہو کر اس کو نہیں مارا حتیٰ کہ نہ کبھی کسی خادم پر آپ کا ہاتھ اٹھا نہ کسی عورت پر ..... یعنی کسی خادم غلام یا باندی سے یا کسی بیوی سے کیسی ہی غلطی ہوئی ہو ، کبھی غصہ سے آپ کا ہاتھ اس پر نہیں اٹھا .... ہاں جہاد فی سبیل اللہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہی کے لئے اس کے کسی دشمن پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اٹھا ہے ، چنانچہ غزوہ بدر میں مشرکین مکہ کا سردار ابی بن خلف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ہاتھ سے ہلاک ہوا ۔
دوسری بات حضرت صدیقہؓ نے یہ بیان فرمائی کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی بدبخت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچائی ہو ئی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدتمیزی کی ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے انتقام لیا ہو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات کے معاملہ میں ہمیشہ عفو و درگزر ہی سے کام لیتے تھے ۔ البتہ اگر کوئی شخص کسی حرام فعل اور جرم کا ارتکاب کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو سزا دیتے تھے ، لیکن یہ سزا بھی نفس کے تقاضے اور طبیعت کے غصہ سے نہیں بلکہ صرف اللہ کی رضا کے لئے اور اس کے حکم کی تعمیل میں دی جاتی تھی ۔
تشریح
ام المومنین حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق دو باتیں بیان فرمائی ہیں ۔ ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کی غلطی یا بےتمیزی پر غصہ ہو کر اس کو نہیں مارا حتیٰ کہ نہ کبھی کسی خادم پر آپ کا ہاتھ اٹھا نہ کسی عورت پر ..... یعنی کسی خادم غلام یا باندی سے یا کسی بیوی سے کیسی ہی غلطی ہوئی ہو ، کبھی غصہ سے آپ کا ہاتھ اس پر نہیں اٹھا .... ہاں جہاد فی سبیل اللہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہی کے لئے اس کے کسی دشمن پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اٹھا ہے ، چنانچہ غزوہ بدر میں مشرکین مکہ کا سردار ابی بن خلف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ہاتھ سے ہلاک ہوا ۔
دوسری بات حضرت صدیقہؓ نے یہ بیان فرمائی کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی بدبخت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچائی ہو ئی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدتمیزی کی ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے انتقام لیا ہو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات کے معاملہ میں ہمیشہ عفو و درگزر ہی سے کام لیتے تھے ۔ البتہ اگر کوئی شخص کسی حرام فعل اور جرم کا ارتکاب کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو سزا دیتے تھے ، لیکن یہ سزا بھی نفس کے تقاضے اور طبیعت کے غصہ سے نہیں بلکہ صرف اللہ کی رضا کے لئے اور اس کے حکم کی تعمیل میں دی جاتی تھی ۔
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا قَطُّ بِيَدِهِ، وَلَا امْرَأَةً، وَلَا خَادِمًا، إِلَّا أَنْ يُجَاهِدَ فِي سَبِيلِ اللهِ، وَمَا نِيلَ مِنْهُ شَيْءٌ قَطُّ، فَيَنْتَقِمَ مِنْ صَاحِبِهِ، إِلَّا أَنْ يُنْتَهَكَ شَيْءٌ مِنْ مَحَارِمِ اللهِ، فَيَنْتَقِمَ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ» (رواه مسلم)
