মা'আরিফুল হাদীস (উর্দু)
کتاب المناقب والفضائل
হাদীস নং: ১৯৮৫
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ سے کسی چیز کا سوال کیا گیا ہو اور آپ نے اس کے جواب میں “لا”(یعنی نہیں) فرمایا ہو ۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کسی چیز کا سوال کیا جاتا تا کہ یہ عنایت فرما دی جائے ، تو آپ کبھی “لا” کہہ کر انکار نہیں فرماتے تھے ، جس سے سوال کرنے والے کی دل شکنی ہوتی اگر وہ چیز موجود ہوتی تو عطا فرمادیتے ، ورنہ عذر فرما دیتے اور دعا فرما دیتے الغرض سوال کرنے والے کو آپ کبھی “لا” کہہ کر انکار اور نفی میں جواب نہیں دیتے تھے ۔
بہ ظاہر یہ ایک معمولی سی بات معلوم ہوتی ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ انتہائی غیر معمولی بات ہے ، کسی شخص کے کسی مطالبہ یا سوال کے جواب میں کبھی بھی “نہ” نہ کہنا آخری درجہ کی کریم النفسی ، شرافت طبع اور عالی ظرفی کی دلیل ہے ، خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ وہبی طور پر یہ صفات نصیب فرما دے ، اسی طرح وہ اللہ کے بندے جو ان صفات سے آراستہ اللہ والوں کے ساتھ رہ کر اپنے اندر یہ اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، وہ بھی بہت قابل رشک ہیں ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کسی چیز کا سوال کیا جاتا تا کہ یہ عنایت فرما دی جائے ، تو آپ کبھی “لا” کہہ کر انکار نہیں فرماتے تھے ، جس سے سوال کرنے والے کی دل شکنی ہوتی اگر وہ چیز موجود ہوتی تو عطا فرمادیتے ، ورنہ عذر فرما دیتے اور دعا فرما دیتے الغرض سوال کرنے والے کو آپ کبھی “لا” کہہ کر انکار اور نفی میں جواب نہیں دیتے تھے ۔
بہ ظاہر یہ ایک معمولی سی بات معلوم ہوتی ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ انتہائی غیر معمولی بات ہے ، کسی شخص کے کسی مطالبہ یا سوال کے جواب میں کبھی بھی “نہ” نہ کہنا آخری درجہ کی کریم النفسی ، شرافت طبع اور عالی ظرفی کی دلیل ہے ، خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ وہبی طور پر یہ صفات نصیب فرما دے ، اسی طرح وہ اللہ کے بندے جو ان صفات سے آراستہ اللہ والوں کے ساتھ رہ کر اپنے اندر یہ اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، وہ بھی بہت قابل رشک ہیں ۔
عَنْ جَابِرٍ قَالَ: " مَا سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا قَطُّ فَقَالَ لَا. (رواه البخارى ومسلم)
