মা'আরিফুল হাদীস (উর্দু)
معارف الحديث
کتاب الاخلاق - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২০ টি
হাদীস নং: ২৪২
خوش اخلاقی کی فضیلت و اہمیت
حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سب سے اچھے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں ۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
دین میں اخلاق کا درجہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیم میں ایمان کے بعد جن چیزوں پر بہت زیادہ زور دیا ہے ، اور انسان کی سعادت کو ان پر موقوف بتلایا ہے ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی اخلاقِ حسنہ اختیار کرے ، اور بُرے اخلاق سے اپنی حفاظت کرے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے جن مقاصد کا قرآن مجید میں ذکر کیا گیا ہے ، اُن میں ایک یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آپ کو انسانوں کا تزکیہ کرنا ہے (ويزكيهم) اور اس تزکیہ میں اخلاق کی اصلاح اور درستی کی کاص اہمیت ہے ۔ حدیث کی مختلف کتابوں میں کود آپ سے یہ مضمون روایت کیا گیا ہے ، کہ میں اخلاق کی اصلاح کے لئیے مبعوث کیا گیا ہوں ۔ یعنی اصلاحِ اخلاق کا کام میری بعثت کے اہم مقاصد اور میرے پروگرام کے خاص اجزاء میں سے ہے ۔ اور ہونا بھی یہی چاہئے تھا کیوں کہ انسان کی زندگی اور اس کے نتائج میں اخلاق کی بڑی اہمیت ہے ، اگر انسان کے اخلاق اچھے ہوں تو اس کی اپنی زندگی بھی قلبی سکون اور خوشگواری کے ساتھ گزرے گی اور دوسروں کے لئے بھی اس کا وجود رحمت اور چین کا سامان ہو گا ، اور اس کے برعکس اگر آدمی کے اخلاق بُرے ہوں ، تو خود بھی وہ زندگی کے لطف و مسرت سے محروم رہے گا اور جن سے اس کا واسطہ اور تعلق ہو گا ان کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی ۔ یہ تو خوش اخلاقی اور بداخلاقی کے وہ نقد دنیوی نتیجے ہیں جن کا ہم آپ روز مرہ مشاہدہ اور تجربے کرتے رہتے ہیں ، لیکن مرنے کے بعد والی ابدی زندگی میں ان دونوں کے نتیجے ان سے بدرجہا زیادہ اہم نکلنے والے ہیں ، آخرت میں خوش اخلاقی کا نتیجہ ارحم الراحمین کی رضا اور جنت ہے اور بداخلاقی کا انجام خداوند قہار کا غضب اور دوزخ کی آگ ہے ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا
اخلاق کی اصلاح کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ارشادات حدیث کی کتابوں میں محفوظ ہیں وہ دو طرح کے ہیں ۔ ایک وہ جن میں آپ نے اصولی طور پر حسنِ اخلاق پر زور دیا ہے اور اُس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان فرمایا ہے ، اور دوسرے وہ جن میں آپ نے بعض خاص کاص اخلاقِ حسنہ اختیار کرنے کی یا اسی طرح بعض مخصوص بداخلاقیوں سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے پہلے ہم قسم اول کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات یہاں درج کریں گے ۔
تشریح
دین میں اخلاق کا درجہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیم میں ایمان کے بعد جن چیزوں پر بہت زیادہ زور دیا ہے ، اور انسان کی سعادت کو ان پر موقوف بتلایا ہے ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی اخلاقِ حسنہ اختیار کرے ، اور بُرے اخلاق سے اپنی حفاظت کرے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے جن مقاصد کا قرآن مجید میں ذکر کیا گیا ہے ، اُن میں ایک یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آپ کو انسانوں کا تزکیہ کرنا ہے (ويزكيهم) اور اس تزکیہ میں اخلاق کی اصلاح اور درستی کی کاص اہمیت ہے ۔ حدیث کی مختلف کتابوں میں کود آپ سے یہ مضمون روایت کیا گیا ہے ، کہ میں اخلاق کی اصلاح کے لئیے مبعوث کیا گیا ہوں ۔ یعنی اصلاحِ اخلاق کا کام میری بعثت کے اہم مقاصد اور میرے پروگرام کے خاص اجزاء میں سے ہے ۔ اور ہونا بھی یہی چاہئے تھا کیوں کہ انسان کی زندگی اور اس کے نتائج میں اخلاق کی بڑی اہمیت ہے ، اگر انسان کے اخلاق اچھے ہوں تو اس کی اپنی زندگی بھی قلبی سکون اور خوشگواری کے ساتھ گزرے گی اور دوسروں کے لئے بھی اس کا وجود رحمت اور چین کا سامان ہو گا ، اور اس کے برعکس اگر آدمی کے اخلاق بُرے ہوں ، تو خود بھی وہ زندگی کے لطف و مسرت سے محروم رہے گا اور جن سے اس کا واسطہ اور تعلق ہو گا ان کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی ۔ یہ تو خوش اخلاقی اور بداخلاقی کے وہ نقد دنیوی نتیجے ہیں جن کا ہم آپ روز مرہ مشاہدہ اور تجربے کرتے رہتے ہیں ، لیکن مرنے کے بعد والی ابدی زندگی میں ان دونوں کے نتیجے ان سے بدرجہا زیادہ اہم نکلنے والے ہیں ، آخرت میں خوش اخلاقی کا نتیجہ ارحم الراحمین کی رضا اور جنت ہے اور بداخلاقی کا انجام خداوند قہار کا غضب اور دوزخ کی آگ ہے ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا
اخلاق کی اصلاح کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ارشادات حدیث کی کتابوں میں محفوظ ہیں وہ دو طرح کے ہیں ۔ ایک وہ جن میں آپ نے اصولی طور پر حسنِ اخلاق پر زور دیا ہے اور اُس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان فرمایا ہے ، اور دوسرے وہ جن میں آپ نے بعض خاص کاص اخلاقِ حسنہ اختیار کرنے کی یا اسی طرح بعض مخصوص بداخلاقیوں سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے پہلے ہم قسم اول کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات یہاں درج کریں گے ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِنَّ مِنْ خِيَارِكُمْ أَحَاسِنَكُمْ أَخْلَاقًا » (رواه البخارى ومسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৩
خوش اخلاقی کی فضیلت و اہمیت
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایمان والوں میں زیادہ کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں جو اخلاق میں زیادہ اچھے ہیں ۔ (رواہ ابو داؤد والدارمی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ ایمان اور اخلاق میں ایسی نسبت ہے کہ جس کا ایمان کامل ہو گا ، اُس کے اخلاق لازماً بہت اچھے ہوں گے اور علیٰ ہذا جس کے اخلاق بہت اچھے ہوں گے اُس کا ایمان بھی بہت کامل ہو گا ۔ واضح رہے کہ ایمان کے بغیر اخلاق بلکہ کسی عمل کا حتی کے عبادات کا بھی کوئی اعتبار نہیں ٰ ہے ۔ ہر عمل اور ہر نیکی کے لیے ایمان بمنزلہ رُوح اور جان کے ہے ، اس لئے اگر کسی شخصیت میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کے بغیر اخلاق نظر آئے تو وہ حقیقی اخلاق نہیں ہے ، بلکہ اخلاق کی صورت ہے ، اس لئے اللہ کے یہاں اس کی کوئی قیمت نہیں ہے ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ ایمان اور اخلاق میں ایسی نسبت ہے کہ جس کا ایمان کامل ہو گا ، اُس کے اخلاق لازماً بہت اچھے ہوں گے اور علیٰ ہذا جس کے اخلاق بہت اچھے ہوں گے اُس کا ایمان بھی بہت کامل ہو گا ۔ واضح رہے کہ ایمان کے بغیر اخلاق بلکہ کسی عمل کا حتی کے عبادات کا بھی کوئی اعتبار نہیں ٰ ہے ۔ ہر عمل اور ہر نیکی کے لیے ایمان بمنزلہ رُوح اور جان کے ہے ، اس لئے اگر کسی شخصیت میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کے بغیر اخلاق نظر آئے تو وہ حقیقی اخلاق نہیں ہے ، بلکہ اخلاق کی صورت ہے ، اس لئے اللہ کے یہاں اس کی کوئی قیمت نہیں ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا » (رواه ابو داؤد والدارمى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৪
خوش اخلاقی کی فضیلت و اہمیت
حضرت ابو الدرداءؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہْ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے ارشادفرمایا قیامت کے دن مؤمن کی میزان عمل میں سب سے زیادہ وزنی اور بھاری چیز جو رکھی جائے گی ، وہ اس کے اچھے اخلاق ہو گے ۔ (ابو داؤد والترمذی)
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : « أَثْقَلُ شَيْءٍ فِي الْمِيزَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ خُلُقٌ حَسَنٌ » (رواه ابو داؤد والترمذى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৫
خوش اخلاقی کی فضیلت و اہمیت
قبیلہ مزینہ کے ایک شخص سے روایت ہے کہ بعض صحابہ نے عرض کیا ، ککہ یا رسول اللہ ! انسان کو جوکچھ عطا ہوا ہے اس میں سب سے بہتر کیا ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ “ اچھے اخلاق ” ۔ (اس کو امام بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے اور امام بغوی نے شرح السنہ میں اس حدیث کو اسامہ بن شریک صحابی سے روایت کیا ہے) ۔
تشریح
ان حدیثوں سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہ ہو گا کہ اخلاق حسنہ کا درجہ ایمان یا ارکان سے بھی بڑھا ہوا ہے ۔ صحابہ کرامؓ جو ان ارشادات کے مخاطب تھے اُن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت سے یہ تو معلوم ہی ہو چکا تھا کہ دین کے شعبوں میں سب سے بڑا درجہ ایماناور توحید کا ہے اور اس کے بعد ارکان کا مقام ہے پھر ان کے بعد دینی زندگی کے جو مختلف اجزاء رہتے ہیں ان میں مختلف جہات سے بعض کو بعض پر فوقیت اور امتیاز حاصل ہے اور بلا شبہ اخلاق کا مقام بہت بلندہے ۔ اور انسانوں کی سعادتاور فلاح میں اور اللہ تعالیٰ کے یہاں ان کی مقبولیت و محبوبیت میں اخلاق کو یقیناً خاصا لخاص دخل ہے ۔
تشریح
ان حدیثوں سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہ ہو گا کہ اخلاق حسنہ کا درجہ ایمان یا ارکان سے بھی بڑھا ہوا ہے ۔ صحابہ کرامؓ جو ان ارشادات کے مخاطب تھے اُن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت سے یہ تو معلوم ہی ہو چکا تھا کہ دین کے شعبوں میں سب سے بڑا درجہ ایماناور توحید کا ہے اور اس کے بعد ارکان کا مقام ہے پھر ان کے بعد دینی زندگی کے جو مختلف اجزاء رہتے ہیں ان میں مختلف جہات سے بعض کو بعض پر فوقیت اور امتیاز حاصل ہے اور بلا شبہ اخلاق کا مقام بہت بلندہے ۔ اور انسانوں کی سعادتاور فلاح میں اور اللہ تعالیٰ کے یہاں ان کی مقبولیت و محبوبیت میں اخلاق کو یقیناً خاصا لخاص دخل ہے ۔
عَنْ رَجُلٍ مِنْ مُزَيْنَةَ قَالَ قَالُوْا يَارَسُوْلَ اللهِ مَا خَيْرُ مَا اُعْطِىَ الْاِنْسَانُ؟ قَالَ : " الْخُلُقُ الْحَسَنُ " (رواه البيهقى فى شعب الايمان والبغوى فى شرح السنة عن اسامة بن شريك)

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৬
خوش اخلاقی کی فضیلت و اہمیت
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ ارشاد فرماتے تھے کہ صاحب ایمان بندہ اچھے اخلاق سے اُن لوگوں کا درجہ حاصل کر لیتا ہے جو رات بھر نفلی نمازیں پڑھتے ہوں ، اور دن کو ہمیشہ روزہ رکھتے ہوں ۔ (ابو داؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اللہ کے جس بندہ کا حال یہ ہو کہ وہ عقیدہ اور عمل کے لحاظ سے سچا مؤمن ہو ، اور ساتھ ہی اس کو حسن اخلاق کی دولت بھی نصیب ہو ، تو اگرچہ وہ رات کو زیادہ نفلیں نہ پڑھتا ہو ، اور کثرت سے نفلی روزے نہ رکھتا ہو ، لیکن پھر بھی وہ اپنے حسن اخلاق کی وجہ سے ان شب بیداروں عبادت گذاروں کا درجہ پا لے گا جو قائل اللیل اور صائم النہار ہوں یعنی جو راتیں نفلوں میں کاٹتے ہوں اور دن کو عموماً روزہ رکھتے ہوں ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اللہ کے جس بندہ کا حال یہ ہو کہ وہ عقیدہ اور عمل کے لحاظ سے سچا مؤمن ہو ، اور ساتھ ہی اس کو حسن اخلاق کی دولت بھی نصیب ہو ، تو اگرچہ وہ رات کو زیادہ نفلیں نہ پڑھتا ہو ، اور کثرت سے نفلی روزے نہ رکھتا ہو ، لیکن پھر بھی وہ اپنے حسن اخلاق کی وجہ سے ان شب بیداروں عبادت گذاروں کا درجہ پا لے گا جو قائل اللیل اور صائم النہار ہوں یعنی جو راتیں نفلوں میں کاٹتے ہوں اور دن کو عموماً روزہ رکھتے ہوں ۔
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " إِنَّ الْمُؤْمِنَ يُدْرِكُ بِحُسْنِ خُلُقِهِ دَرَجَاتِ قَائِمِ اللَّيْلِ ، صَائِمِ النَّهَارِ " (رواه ابو داؤد)

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৭
خوش اخلاقی کی فضیلت و اہمیت
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آخری وصیت مجھے کی تھی جب کہ میں نے اپنا پاؤں اپنی سواری کی رکاب میں رکھ لیا تھا ، وہ یہ تھی کہ آپ کو فرمایا : لوگوں کے لیے اپنے اخلاق کو بہتر بناؤ ، یعنی بندگانِ خدا کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ ۔ (مؤطا امام مالک)
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ کے آخری دور میں حضرت معاذ کو یمن کا گورنربنا کر بھیجا تھا ، مدینہ طیبہ سے اُن کو رخصت کرتے وقت آپ نے خاص اہتمام سے بہت سی نصیحتیں کیں تھی جو حضرت معاذؓ سے مختلفابواب میں مروی ہیں ۔ حضرت معاذؓ کا اشارہ اس حدیث میں اس موقع کی طرف ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اپنی سواری پر سوار ہونے لگا ، اور اس کی رکاب میں میں نے پاؤں رکھا ، تو اُس وقت آخری نصیحت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ فرمائی تھی ، کہ اللہ کے بندوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا ۔
واضح رہے کہ خوش اخلاقی کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ جو عادی مجرم اور ظلم پیشہ بدمعاش سختی کے مستحق ہوں اور سختی کے بغیر ان کا علاج نہ ہو سکتا ہو اُن کے ساتھ بھی نرمی کی جائے ، یہ تو اپنے فرائض کی ادائگی میں کوتاہی اور مداہنت ہوگی ۔ بہر حال عدل و انصاف اور اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود کی پابندی کے ساتھ مجرموں کی تادیب اور تعزیر کے سلسلہ میں اُن پر سختی کرنا کسی اخلاقی قانون میں بھی حسن اخلاق کے خلاف نہیں ہے ۔
ف ۔ ۔ ۔ یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے کہ حضرت معاذؓ کو یمن رخصت کرتے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ بھی فرمایا تھا کہ شاید اس کے بعد مجھ سے تمہاری ملاقات نہ ہو ، اور بجائے میرے ، میری مسجد اور میری قبر پر تمہارا گزرہو ۔ اور چونکہ آپ کی عامدادت ایسی بات کرنے کی نہ تھی ، اس لیے حضرت معاذ نے اس سے یہی سمجھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں ، اور شاید اب مجھے اس دنیا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب نہ ہوگی ۔ چنانچہ آپ کا یہ ارشاد سُن کر وہ رو پڑے ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما کر ان کو تسلی دی ، کہ" إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِي الْمُتَّقُونَ مَنْ كَانُوا وَحَيْثُ كَانُوا " (اللہ کے متقی بندے جو بھی ہوں اور جہاں بھی ہوں وہ مجھ سے قریب رہیں گے) اور یہی ہوا کہ یمن سے حضرت معاذؓ کی واپسی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں نہیں ہوئی ، اور جب آئے تو آپ کی قبر مبارک ہی کو پایا ۔
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ کے آخری دور میں حضرت معاذ کو یمن کا گورنربنا کر بھیجا تھا ، مدینہ طیبہ سے اُن کو رخصت کرتے وقت آپ نے خاص اہتمام سے بہت سی نصیحتیں کیں تھی جو حضرت معاذؓ سے مختلفابواب میں مروی ہیں ۔ حضرت معاذؓ کا اشارہ اس حدیث میں اس موقع کی طرف ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اپنی سواری پر سوار ہونے لگا ، اور اس کی رکاب میں میں نے پاؤں رکھا ، تو اُس وقت آخری نصیحت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ فرمائی تھی ، کہ اللہ کے بندوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا ۔
واضح رہے کہ خوش اخلاقی کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ جو عادی مجرم اور ظلم پیشہ بدمعاش سختی کے مستحق ہوں اور سختی کے بغیر ان کا علاج نہ ہو سکتا ہو اُن کے ساتھ بھی نرمی کی جائے ، یہ تو اپنے فرائض کی ادائگی میں کوتاہی اور مداہنت ہوگی ۔ بہر حال عدل و انصاف اور اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود کی پابندی کے ساتھ مجرموں کی تادیب اور تعزیر کے سلسلہ میں اُن پر سختی کرنا کسی اخلاقی قانون میں بھی حسن اخلاق کے خلاف نہیں ہے ۔
ف ۔ ۔ ۔ یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے کہ حضرت معاذؓ کو یمن رخصت کرتے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ بھی فرمایا تھا کہ شاید اس کے بعد مجھ سے تمہاری ملاقات نہ ہو ، اور بجائے میرے ، میری مسجد اور میری قبر پر تمہارا گزرہو ۔ اور چونکہ آپ کی عامدادت ایسی بات کرنے کی نہ تھی ، اس لیے حضرت معاذ نے اس سے یہی سمجھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں ، اور شاید اب مجھے اس دنیا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب نہ ہوگی ۔ چنانچہ آپ کا یہ ارشاد سُن کر وہ رو پڑے ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما کر ان کو تسلی دی ، کہ" إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِي الْمُتَّقُونَ مَنْ كَانُوا وَحَيْثُ كَانُوا " (اللہ کے متقی بندے جو بھی ہوں اور جہاں بھی ہوں وہ مجھ سے قریب رہیں گے) اور یہی ہوا کہ یمن سے حضرت معاذؓ کی واپسی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں نہیں ہوئی ، اور جب آئے تو آپ کی قبر مبارک ہی کو پایا ۔
عَنْ مُعَاذٍ قَالَ : كَانَ آخِرُ مَا وَصَّانِىْ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ وَضَعْتُ رِجْلِي فِي الْغَرْزِ ، اَنْ قَالَ : يَامُعَاذُ " أَحْسِنْ خُلُقَكَ لِلنَّاسِ (رواه مالك)

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৮
خوش اخلاقی کی فضیلت و اہمیت
حضرت امام مالکؒ سے روایت ہے کہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث پہنچی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا : میں اس واسطے بھیجا گیا ہوں کہ اخلاقی خوبیوں کو کمال تک پہنچا دوں ۔ (امام مالکؒ نے اسکو اپنی موطا میں اسی طرح بغیر کسی صحابی کے حوالے کے روایت کیا ہے ، اور اماماحمدؒ نے اپنی مسند میں اس کو حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کیا ہے) ۔
تشریح
اس روایت سے معلوم ہوا کہ اخلاق کی اصلاح اور مکارم اخلاق کی تکمیل آپ کے خاص مقاصد بعثت میں سے ہے اور جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا قرآن مجید میں جس تزکیہ کو آپ کا خاص کام بتلایا گیا ہے اخلاق کی اصلاح اس کااہم جز ہے ۔
تشریح
اس روایت سے معلوم ہوا کہ اخلاق کی اصلاح اور مکارم اخلاق کی تکمیل آپ کے خاص مقاصد بعثت میں سے ہے اور جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا قرآن مجید میں جس تزکیہ کو آپ کا خاص کام بتلایا گیا ہے اخلاق کی اصلاح اس کااہم جز ہے ۔
عَنْ مَالِكٍ بَلَغَهُ اَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ حُسْنَ الْأَخْلَاقِ " (رواه فى المؤطا ورواه احمد عن ابى هريرة)

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৯
خوش اخلاقی کی فضیلت و اہمیت
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم دوستوں میں مجھے زیادہ محبوب وہ ہیں جن کے اخلاق زیادہ اچھے ہیں ۔ (صحیح بخاری)
تشریح
حضرت جابرؓ کی ایک حدیث میں جس کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اس طرح ہے کہ “ إِنَّ مِنْ أَحَبِّكُمْ إِلَيَّ وَأَقْرَبِكُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ القِيَامَةِ أَحسنكُمْ أَخْلَاقًا ” (تم دوستوں میں مجھے زیادہ محبوب وہ ہیں اور قیامت کے دن اُن ہی کی نشست بھی میرے زیادہ قریب ہوگی جن کے اخلاق تم زیادہ بہتر ہیں) گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوبیت اورقیامت کے دن آپ کا قرب نصیب ہونے میں حسن اخلاق کی دولت کو خاص دخل ہے ۔
حسن اخلاق کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا بھی بڑھ لیجئے اور اپنے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیا کیجئے ۔
تشریح
حضرت جابرؓ کی ایک حدیث میں جس کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اس طرح ہے کہ “ إِنَّ مِنْ أَحَبِّكُمْ إِلَيَّ وَأَقْرَبِكُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ القِيَامَةِ أَحسنكُمْ أَخْلَاقًا ” (تم دوستوں میں مجھے زیادہ محبوب وہ ہیں اور قیامت کے دن اُن ہی کی نشست بھی میرے زیادہ قریب ہوگی جن کے اخلاق تم زیادہ بہتر ہیں) گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوبیت اورقیامت کے دن آپ کا قرب نصیب ہونے میں حسن اخلاق کی دولت کو خاص دخل ہے ۔
حسن اخلاق کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا بھی بڑھ لیجئے اور اپنے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیا کیجئے ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍوقَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ « إِنَّ مِنْ أَحَبِّكُمْ إِلَيَّ أَحْسَنَكُمْ أَخْلاَقًا » (رواه البخارى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৫০
خوش اخلاقی کی فضیلت و اہمیت
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کرتے تھے : “ اے میرے اللہ ! تو نے اپنے کرم سے میرے جسم کی ظاہری بناوٹ بنائی ہے اسی طرح میرے اخلاق بھی اچھے کر ے ” ۔
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسن اخلاق کی دعا بہت سے موقعوں پر مختلف الفاظ میں روایت کی گئی ہے ، انشاء اللہ کتاب الدعوات میں آپ کی وہ دعائیں نقل کی جائیں گی ۔ یہاں ان میں سے صرف ایک دعا اور بھی پڑھ لیجئے ۔
صحیح مسلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کی کچھ تفضیل روایت کی گئی ہے ، اسی میں ہے کہ آپ نے دوران نماز میں جو دعائیں اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے مانگیں اُن میں سے ایک دعا یہ بھی تھی ۔
وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلاقِ ، لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلا أَنْتَ ، وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا ، لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلا أَنْتَ
اے میرے اللہ ! تو مجھ کو بہتر سے بہتر اخلاق کی رہنمائی کر ، تیرے سوا کوئی بہتر اخلاق کی رہنمائی نہیں کر سکتا ، اور بُرے اخلاق کو میری طرف سے ہٹا دے ، ان کو تیرے سوا کوئی ہٹا بھی نہیں سکتا ۔
یہ حدیثیں حسن اخلاق کی فضیلت و اہمیت سے متعلق تھیں ، اب آگے مختلف عنوانات کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ارشادات درج ہوں گے جن میں آپ نے خاص خاص اخلاقِ حسنہ کی ترغیب دی ہے ، یا بُرے اخلاق سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے ۔
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسن اخلاق کی دعا بہت سے موقعوں پر مختلف الفاظ میں روایت کی گئی ہے ، انشاء اللہ کتاب الدعوات میں آپ کی وہ دعائیں نقل کی جائیں گی ۔ یہاں ان میں سے صرف ایک دعا اور بھی پڑھ لیجئے ۔
صحیح مسلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کی کچھ تفضیل روایت کی گئی ہے ، اسی میں ہے کہ آپ نے دوران نماز میں جو دعائیں اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے مانگیں اُن میں سے ایک دعا یہ بھی تھی ۔
وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلاقِ ، لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلا أَنْتَ ، وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا ، لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلا أَنْتَ
اے میرے اللہ ! تو مجھ کو بہتر سے بہتر اخلاق کی رہنمائی کر ، تیرے سوا کوئی بہتر اخلاق کی رہنمائی نہیں کر سکتا ، اور بُرے اخلاق کو میری طرف سے ہٹا دے ، ان کو تیرے سوا کوئی ہٹا بھی نہیں سکتا ۔
یہ حدیثیں حسن اخلاق کی فضیلت و اہمیت سے متعلق تھیں ، اب آگے مختلف عنوانات کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ارشادات درج ہوں گے جن میں آپ نے خاص خاص اخلاقِ حسنہ کی ترغیب دی ہے ، یا بُرے اخلاق سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے ۔
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " اللهُمَّ أَحْسَنْتَ خَلْقِي ، فَأَحْسِنْ خُلُقِي " (رواه احمد)

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৫১
دوسروں پر رحم کھانے والے اللہ کی رحمت کے مستحق ہیں
حضرت جریر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت سے محروم رہیں گے جن کے دلوں میں دوسرے آدمیوں کے لیے رحم نہیں اور جو دوسروں پر ترس نہیں کھاتے ۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
اس حدیث میں “ الناس ” کا لفظ عام ہے ، جو مومن و کافر اور متقی و فاجر سبکو شامل ہے ، اور بلا شبہ رحم سب کا حق ہے ، البتہ کافر اور فاجر کے ساتھ سچی رحمدلی کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہونا چاہئے کہ اس کے کفر اور فجور کے انجام کا ہمارے دل میں درد ہو ، اور ہم اس سے اس کو بچانے کی کوشش کریں ، اس کے علاوہ اگر وہ کسی دنیوی اور جسمانی تکلیف میں ہو ، تو اس سے اس کو بچانے کی فکر کرنا بھی رحمدلی کا یقیناً تقاضا ہے ، اور ہم کو اس کا بھی حکم ہے ۔
تشریح
اس حدیث میں “ الناس ” کا لفظ عام ہے ، جو مومن و کافر اور متقی و فاجر سبکو شامل ہے ، اور بلا شبہ رحم سب کا حق ہے ، البتہ کافر اور فاجر کے ساتھ سچی رحمدلی کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہونا چاہئے کہ اس کے کفر اور فجور کے انجام کا ہمارے دل میں درد ہو ، اور ہم اس سے اس کو بچانے کی کوشش کریں ، اس کے علاوہ اگر وہ کسی دنیوی اور جسمانی تکلیف میں ہو ، تو اس سے اس کو بچانے کی فکر کرنا بھی رحمدلی کا یقیناً تقاضا ہے ، اور ہم کو اس کا بھی حکم ہے ۔
عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « لاَ يَرْحَمُ اللَّهُ مَنْ لاَ يَرْحَمُ النَّاسَ » (رواه البخارى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৫২
دوسروں پر رحم کھانے والے اللہ کی رحمت کے مستحق ہیں
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصرضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : رحم کرنے والوں اور ترس کھانے والوں پر بڑی رحمت والا خدا رحم کرے گا ، زمین پر رہنے بسنے والی اللہ کی مخلوق پر تم رحم کرو تو آسمان والا تم پر رحمت کرے گا ۔ (سنن ابی داؤد و جامع ترمذی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ خدا کی خاص رحمت کے مستحق بس وہی نیک دل بندے ہیں جن کے دلوں میں اللہ کی دوسری مخلوق کے لئے رحم ہے ۔
اس حدیث میں زمین میں رہنے بسنے والی اللہ کی ساری مخلوق پر رحم کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے ، جس میں انسانوں کے تمام طبقوں کے علاوہ جانور بھی شامل ہیں ، آگے آنے والی حدیثوں میں اس عموم کی صراحت بھی کی گئی ہے ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ خدا کی خاص رحمت کے مستحق بس وہی نیک دل بندے ہیں جن کے دلوں میں اللہ کی دوسری مخلوق کے لئے رحم ہے ۔
اس حدیث میں زمین میں رہنے بسنے والی اللہ کی ساری مخلوق پر رحم کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے ، جس میں انسانوں کے تمام طبقوں کے علاوہ جانور بھی شامل ہیں ، آگے آنے والی حدیثوں میں اس عموم کی صراحت بھی کی گئی ہے ۔
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمُ الرَّحْمَنُ ، ارْحَمُوا مَنْ فِي الأَرْضِ يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ . (رواه ابو داؤد والترمذى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৫৩
ایک شخص پیاسے کتے کو پانی پلانے پر بخش دیا گیا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس اثناء میں کہ ایک آدمی راستہ چلا جا رہا تھا ، اُسے سخت پیاسلگی ، چلتے چلتے اُسے ایک کنواں ملا ، وہ اس کے اندر اُترا اور پانی پی کر باہر نکل آیا ، کنوئیں کے اندر سے نکل کر اُس نے دیکھا کہ ایک کتا ہے جس کی زبان باہر نکلی ہوئی ہے اور پیاس کی شدت سے وہ کیچڑ کھا رہا ہے ، اس آدمی نے دل میں کہا کہ اس کتے کو بھی پیاس کی ایسی ہی تکلیف ہے جیسی کہ مجھے تھی ، اور وہ اس کتے پر رحم کھا کر پھر اس کنوئیں میں اُترا اور اپنے چمڑے کے موزے میں پانی بھر کر اُس نے اُس کو اپنے منہ سے تھاما اور کنوئیں سے باہر نکل آیا ، اور اُس کتے کو وہ پانی اُس نے پلا دیا ، اللہ تعالیٰ نے اس کی اس رحمدلی اور اس محنت کی قدر فرمائی اور اسی عمل پر اس کی بخشش کا فیصلہ فرما دیا ۔ بعض صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ سُن کر دریافت کیا ، کہ : یا رسول اللہ ! کیا جانوروں کی تکلیف دور کرنے میں بھی ہمارے لئے اجر و ثواب ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! ہر زندہ اور تر جگر رکھنے والے جانور (کی تکلیف دور کرنے) میں ثواب ہے ۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
بعض اوقاتایک معمولی عمل دل کی خاص کیفیت یا خاص حالات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑی قبولیت حاصل کر لیتا ہے ، اور اس کا کرنے والا اُسی پر بخش دیا جاتا ہے ، اس حدیث میں جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے اُس کی نوعیت بھی یہی ہے ۔ آپ ذرا سوچئے ! ایک شخص گرمی کے موسم میں اپنی منزل کی طرف چلا جا رہا ہے ، اُس کو پیاس لگی ہے ، اسی حالت میں اُس کو ایک کنواں نظر پڑ گیا ، لیکن پانی نکالنے کا کوئی سامان رسی ڈول وغیرہ نہیں ہے اس لئے مجبوراً یہ شخص پانی پینے کے لئے خود ہی کنوئیں میں اتر گیا ، وہیں پانی پیا اور نکل آیا ، اب اُس کی نظر ایک کتے پر پڑی ، جو پیاس کی شدت سے کیچڑ چاٹ رہا تھا ، اُس کو اُس کی حالت پر ترس آیا ، اور دل میں داعیہ پیدا ہوا کہ اس کو بھی پانی پلاؤں ، اُس وقت ایک طرف اس کی اپنی حالت کا تقاضا یہ ہو گا کہ اپنا راستہ لوں اور منزل پر جلدی پہنچ کے آرام کروں ، اور دوسری طرف اُس کے جذبہ رحم کا داعیہ یہ ہو گا کہ خواہ میرا راستہ کھوٹا ہو ، اور خواہ کنوئیں سے پانی نکالنے میں مجھے کیسی ہی محنت مشقت کرنی پڑے لیکن میں اللہ کی اس مخلوق کو پیاس کی تکلیف سے نجات دوں ، اس کشمکش کے بعد جب اُس نے اپنی طبیعت کے آرام کے تقاضے کے خلاف جذبہ رحم کے تقاضے کے مطابق فیصلہ کیا اور کنوئیں میں اُتر کر موزے میں پانی بھر کر اور منہ میں موزا تھام کر محنت و مشقت سے پانی نکال کے لایا ، اور اُس پیاسے کتے کو پلایا تو اُس بندہ کی اس خاص حالت اور ادا پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش آ گیا ، اور اسی پر اس کی مغفرت کا فیصلہ فرما دیا گیا ۔
الغرض مغفرت و مخشش کے اس فیصلہ کا تعلق صرف کتے کو پانی پلانے کے عمل ہی سے نہ سمجھنا چاہئے ، بلکہ جس خاص حالت میں اور جس جذبہ کے ساتھ اُس نے یہ عمل کیا تھا ، وہ اللہ تعالیٰ کو بے حد پسند آیا ، اور اسی پر اس بندہ کی مغفرت اور بخشش کا فیصلہ کر دیا ۔
تشریح
بعض اوقاتایک معمولی عمل دل کی خاص کیفیت یا خاص حالات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑی قبولیت حاصل کر لیتا ہے ، اور اس کا کرنے والا اُسی پر بخش دیا جاتا ہے ، اس حدیث میں جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے اُس کی نوعیت بھی یہی ہے ۔ آپ ذرا سوچئے ! ایک شخص گرمی کے موسم میں اپنی منزل کی طرف چلا جا رہا ہے ، اُس کو پیاس لگی ہے ، اسی حالت میں اُس کو ایک کنواں نظر پڑ گیا ، لیکن پانی نکالنے کا کوئی سامان رسی ڈول وغیرہ نہیں ہے اس لئے مجبوراً یہ شخص پانی پینے کے لئے خود ہی کنوئیں میں اتر گیا ، وہیں پانی پیا اور نکل آیا ، اب اُس کی نظر ایک کتے پر پڑی ، جو پیاس کی شدت سے کیچڑ چاٹ رہا تھا ، اُس کو اُس کی حالت پر ترس آیا ، اور دل میں داعیہ پیدا ہوا کہ اس کو بھی پانی پلاؤں ، اُس وقت ایک طرف اس کی اپنی حالت کا تقاضا یہ ہو گا کہ اپنا راستہ لوں اور منزل پر جلدی پہنچ کے آرام کروں ، اور دوسری طرف اُس کے جذبہ رحم کا داعیہ یہ ہو گا کہ خواہ میرا راستہ کھوٹا ہو ، اور خواہ کنوئیں سے پانی نکالنے میں مجھے کیسی ہی محنت مشقت کرنی پڑے لیکن میں اللہ کی اس مخلوق کو پیاس کی تکلیف سے نجات دوں ، اس کشمکش کے بعد جب اُس نے اپنی طبیعت کے آرام کے تقاضے کے خلاف جذبہ رحم کے تقاضے کے مطابق فیصلہ کیا اور کنوئیں میں اُتر کر موزے میں پانی بھر کر اور منہ میں موزا تھام کر محنت و مشقت سے پانی نکال کے لایا ، اور اُس پیاسے کتے کو پلایا تو اُس بندہ کی اس خاص حالت اور ادا پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش آ گیا ، اور اسی پر اس کی مغفرت کا فیصلہ فرما دیا گیا ۔
الغرض مغفرت و مخشش کے اس فیصلہ کا تعلق صرف کتے کو پانی پلانے کے عمل ہی سے نہ سمجھنا چاہئے ، بلکہ جس خاص حالت میں اور جس جذبہ کے ساتھ اُس نے یہ عمل کیا تھا ، وہ اللہ تعالیٰ کو بے حد پسند آیا ، اور اسی پر اس بندہ کی مغفرت اور بخشش کا فیصلہ کر دیا ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي بِطَرِيقٍ ، اشْتَدَّ عَلَيْهِ العَطَشُ ، فَوَجَدَ بِئْرًا فَنَزَلَ فِيهَا ، فَشَرِبَ ثُمَّ خَرَجَ ، فَإِذَا كَلْبٌ يَلْهَثُ ، يَأْكُلُ الثَّرَى مِنَ العَطَشِ ، فَقَالَ الرَّجُلُ : لَقَدْ بَلَغَ هَذَا الكَلْبَ مِنَ العَطَشِ مِثْلُ الَّذِي كَانَ بَلَغَ بِي ، فَنَزَلَ البِئْرَ فَمَلَأَ خُفَّهُ ثُمَّ أَمْسَكَهُ بِفِيهِ ، فَسَقَى الكَلْبَ فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ " قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَإِنَّ لَنَا فِي البَهَائِمِ أَجْرًا؟ فَقَالَ : « نَعَمْ ، فِي كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ رَطْبَةٍ أَجْرٌ » (رواه البخارى ومسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৫৪
اپنے پالے ہوئے جانوروں کے چارے پانی کی خبر گیری کا حکم اور انہیں تکلیف دینے کی ممانعت
عبداللہ بن جعفررضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری صحابی کے باغ میں تشریف لے گئے ، وہاں ایک اونٹ تھا ، جب اُس اونٹ نے آپ کو دیکھا ، تو ایسا ڈکرایا اور ایسی درد بھری آواز اُس نے نکالی جیسی بچے کے جدا ہونے پر اونٹنی کی آواز نکلتی ہے ، اور اُس کی آنکھوں سے آنسو بھی جاری ہو گئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے قریب تشریف لے گئے ، اور آپ نے اس کی کنوتیوں پر اپنا دست شفقت پھیرا (جیسے کہ گھوڑے یا اونٹ پر پیار کرتے وقت ہاتھ پھیرا جاتا ہے) وہ اونٹ خاموش ہوگیا ۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ اونٹ کس کا ہے ؟ اس کا مالک کون ہے ؟ ایک انصاری نو جوان آئے ، اور انہوں نے عرض کیا ، حضرت ! یہ اونٹ میرا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ اس بیچارے بے زبان جانور کے بارہ میں تم اس اللہ سے ڈرتے نہیں جس نے تم کو اس کا مالک بنایا ہے ، اس نے مجھے شکایت کی ہے کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہو ، اور زیادہ کام لے کر تم اس کو بہت دکھ پہنچاتے ہو ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
جس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے معجزانہ طور پر پرندوں کی بولی سمجھ لیتے تھے ، جس کا ذخر قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے (وَعُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ) اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جانوروں کی بات چیت معجزانہ طور پر سمجھ لیتے تھے ۔ اس حدیث میں اونٹ کی شکایت کو سمجھنے کا ، اور اس سے بعد والی حدیث میں ایک چڑیا کی شکایت کو سمجھنے کا جو ذکر ہے ، بظاہر وہ اسی قبیل سے ہے ، اور گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ ہے ۔ حدیث کی خاص تعلیم یہ ہے کہ جس کے پاس کوئی جانور ہو ، اُس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اُس کے کھلانے پلانے سے غافل نہ ہو ، اور اُس پر کام کا بوجھ بھی اُس کی قوت سے زیادہ نہ ڈالے ۔
دنیا نے “ انسدادِ بے رحمی ” کی ذمہ داری کو اب کچھ سمجھا ہے ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اب سے قریباً چودہ سو برس پہلے دنیا کو یہ سکھایا تھا ۔
تشریح
جس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے معجزانہ طور پر پرندوں کی بولی سمجھ لیتے تھے ، جس کا ذخر قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے (وَعُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ) اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جانوروں کی بات چیت معجزانہ طور پر سمجھ لیتے تھے ۔ اس حدیث میں اونٹ کی شکایت کو سمجھنے کا ، اور اس سے بعد والی حدیث میں ایک چڑیا کی شکایت کو سمجھنے کا جو ذکر ہے ، بظاہر وہ اسی قبیل سے ہے ، اور گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ ہے ۔ حدیث کی خاص تعلیم یہ ہے کہ جس کے پاس کوئی جانور ہو ، اُس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اُس کے کھلانے پلانے سے غافل نہ ہو ، اور اُس پر کام کا بوجھ بھی اُس کی قوت سے زیادہ نہ ڈالے ۔
دنیا نے “ انسدادِ بے رحمی ” کی ذمہ داری کو اب کچھ سمجھا ہے ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اب سے قریباً چودہ سو برس پہلے دنیا کو یہ سکھایا تھا ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالَ : دَخَلَ النَّبِىِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَائِطًا لِرَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فَإِذَا فِيْهِ جَمَلٌ ، فَلَمَّا رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَنَّ وَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ ، فَأَتَاهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَسَحَ ذِفْرَاهُ فَسَكَتَ ، فَقَالَ : « مَنْ رَبُّ هَذَا الْجَمَلِ ، لِمَنْ هَذَا الْجَمَلُ؟ » ، فَجَاءَ فَتًى مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ : لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ . فَقَالَ : « أَفَلَا تَتَّقِي اللَّهَ فِي هَذِهِ الْبَهِيمَةِ الَّتِي مَلَّكَكَ اللَّهُ إِيَّاهَا؟ ، فَإِنَّهُ شَكَا إِلَيَّ أَنَّكَ تُجِيعُهُ وَتُدْئِبُهُ » (رواه ابو داؤد)

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৫৫
چڑیوں اور چیونٹیوں تک کو ستانے کی ممانعت
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے صاحبزادے عبدالرحمٰن اپنے والد ماجد سے روایت ہے کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، آپ قضاء حاجت کے لئے تشریف لے گئے ، اس اثناء میں ہماری نظر ایک سرخ چڑیا (غالباً نیک کنٹھ) پر پڑی ، جس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے اُس کے دو بچے بھی تھے ہم نے اُن بچوں کو پکڑ لیا ، وہ چڑیا آئی اور ہمارے سروں پر منڈلانے لگی ، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ، آپ نے فرمایا ، کس نے اس کے بچے پکڑ کر اسے ستایا ہے ؟ اس کے بچے اس کو واپس کر دو ۔ اور آپ نے چیونٹیوں کی ایک بستی دیکھی (یعنی زمین کا ایک ایسا ٹکڑا جہاں چیونٹیوں کے بہت سوراخ تھے اور چیونٹیوں کی بہت کثرت تھی) ہم نے وہاں آگ لگا دی تھی ۔ آپ نے فرمایا : کس نے ان کو آپ سے جلایا ہے ؟ ہم نے عرض کیا ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے ہی آگ لگائی ہے ۔ آپ نے فرمایا آگ کے پیدا کرنے والے خدا کے سوا کسی کے لئے یہ سزاوار نہیں ہے کہ وہ کسی جاندار کو آگ کاعذاب دے ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
اس حدیثوں سے معلوم ہوا کہ جانوروں حتی کہ زمین کی چیونٹیوں کا بھی حق ہے کہ اُن کو بلا وجہ نہ ستایا جائے ۔
تشریح
اس حدیثوں سے معلوم ہوا کہ جانوروں حتی کہ زمین کی چیونٹیوں کا بھی حق ہے کہ اُن کو بلا وجہ نہ ستایا جائے ۔
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ ، فَانْطَلَقَ لِحَاجَتِهِ فَرَأَيْنَا حُمَّرَةً مَعَهَا فَرْخَانِ فَأَخَذْنَا فَرْخَيْهَا ، فَجَاءَتِ الْحُمَّرَةُ فَجَعَلَتْ تَفْرِشُ ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : « مَنْ فَجَعَ هَذِهِ بِوَلَدِهَا؟ رُدُّوا وَلَدَهَا إِلَيْهَا » . وَرَأَى قَرْيَةَ نَمْلٍ قَدْ حَرَّقْنَاهَا فَقَالَ : « مَنْ حَرَّقَ هَذِهِ؟ » قُلْنَا : نَحْنُ . قَالَ : « إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي أَنْ يُعَذِّبَ بِالنَّارِ إِلَّا رَبُّ النَّارِ » (رواه ابو داؤد)

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৫৬
بلی کو باندھ کے بھوکا مار ڈالنے والی سنگدل عورت دوزخ میں گئی
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ایک بے درد اور بے رحم عورت اس لئے جہنم میں گرائی گئی کہ اُس نے ایک بلی کو باندھ کے (بھوکا مار ڈالا) نہ تو اسے خود کچھ کھانے کو دیا اور نہ اُسے چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑوں سے اپنی غذا حاصل کر لیتی ۔ (بخاری مسلم)
تشریح
حضرت جابرؓ کی ایک روایت سے جو صحیح مسلم میں مروی ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بے درد اور بے رحم عورت بنی اسرائیل میں سے تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شبِ معراج میں یا خواب یا بیداری کے کسی اور مکاشفہ میں اس کو دوزخ میں بچشم خود مبتلائے عذاب دیکھا ۔
بہر حال اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جانوروں کے ساتھ بھی بے دردی اور بے رحمی کامعاملہ اللہ تعالیٰ کو سخت ناراض کرنے والا اور جہنم میں لے جانے والا عمل ہے ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا
تشریح
حضرت جابرؓ کی ایک روایت سے جو صحیح مسلم میں مروی ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بے درد اور بے رحم عورت بنی اسرائیل میں سے تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شبِ معراج میں یا خواب یا بیداری کے کسی اور مکاشفہ میں اس کو دوزخ میں بچشم خود مبتلائے عذاب دیکھا ۔
بہر حال اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جانوروں کے ساتھ بھی بے دردی اور بے رحمی کامعاملہ اللہ تعالیٰ کو سخت ناراض کرنے والا اور جہنم میں لے جانے والا عمل ہے ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا
عَنِ عَبْدِ اللهِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، : « دَخَلَتِ امْرَأَةٌ النَّارَ فِي هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا ، فَلَمْ تُطْعِمْهَا ، وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الأَرْضِ » (رواه البخارى ومسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৫৭
کسی بدبخت ہی کا دل رحم کے مادہ سے خالی ہوتا ہے
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ میں نے صادق و مصدوق سیدنا ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے ، آپ ارشاد فرماتے تھے کہ نہیں نکالا جاتا رحمت کا مادہ مگر بدبخت کے دل سے ۔ (مسنداحمد ، جامع ترمذی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ رحم اور ترس کے مادہ سے کسی کے دل کا بالکل خالی ہونا اس بات کی نشانی ہے کہک اللہ کے نزدیک وہ بدبخت اور بے نصیب ہے کیوں کہ کسی بدبخت ہی کا دل رحمت کے مادہ سے خالی ہوتا ہے ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ رحم اور ترس کے مادہ سے کسی کے دل کا بالکل خالی ہونا اس بات کی نشانی ہے کہک اللہ کے نزدیک وہ بدبخت اور بے نصیب ہے کیوں کہ کسی بدبخت ہی کا دل رحمت کے مادہ سے خالی ہوتا ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الْقَاسِمِ الصَّادِقَ الْمَصْدُوقَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " لَا تُنْزَعُ الرَّحْمَةُ إِلَّا مِنْ شَقِيٍّ " (رواه احمد والترمذى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৫৮
دل کی قساوت اور سختی کا علاج
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی قساوت قلبی (سخت دلی) کی شکایت کی ۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو ، اور مسکین کو کھانا کھلایا کرو ۔ (مسند احمد)
تشریح
سخت دلی اور سنگ دلی ایک روحانی مرض اور انسان کی بدبختی کی نشانی ہے ، سائل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دل اور اپنی روح کی اس بیماری کا حال عرض کر کے آپ سے علاج دریافت کیا تھا ، آپ نے ان کو دو باتوں کی ہدایت فرمائی ، ایک یہ کہ یتیم کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرا کرو ، اور دوسرے یہ کہ بھوکے فقیر مسکین کو کھانا کھلایا کرو ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بتلایا ہوا یہ علاج علم النفس کے ایک خاص اصول پر مبنی ہے ، بلکہ کہنا چاہئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے اُس اصول کی تائید و توثیق ہوتی ہے ، وہ اصول یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے نفس یا قلب میں کوئی خاص کیفیت نہ ہو ، اور وہ اس کو پیداق کرنا چاہے ، تو ایک تدبیر اُس کی یہ بھی ہے کہ اُس کیفیت کے آثار اور لوازم کو وہ اختیار کر لے ، انشاء اللہ کچھ عرصہ کے بعد وہ کیفیت بھی نصیب ہو جائے گی ۔ دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کے لئے کثرت ذکر کا طریقہ جو حضرات صوفیہ کرام میں رائج ہے ، اُس کی بنیاد بھی اسی اصول پر ہے ۔
بہر حال یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنا ، اور مسکین کو کھانا کھلانا دراصل جذبہ رحم کے آ ثار میں سے ہے ، لیکن جب کسی کا دل اس جذبہ سے خالی ہو ، وہ اگر یہ عمل بہ تکل ہی کرنے لگے ، تو انشاء اللہ اس کے قلب میں بھی رحم کی کیفیت پیدا ہو جائے گی ۔
تشریح
سخت دلی اور سنگ دلی ایک روحانی مرض اور انسان کی بدبختی کی نشانی ہے ، سائل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دل اور اپنی روح کی اس بیماری کا حال عرض کر کے آپ سے علاج دریافت کیا تھا ، آپ نے ان کو دو باتوں کی ہدایت فرمائی ، ایک یہ کہ یتیم کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرا کرو ، اور دوسرے یہ کہ بھوکے فقیر مسکین کو کھانا کھلایا کرو ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بتلایا ہوا یہ علاج علم النفس کے ایک خاص اصول پر مبنی ہے ، بلکہ کہنا چاہئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے اُس اصول کی تائید و توثیق ہوتی ہے ، وہ اصول یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے نفس یا قلب میں کوئی خاص کیفیت نہ ہو ، اور وہ اس کو پیداق کرنا چاہے ، تو ایک تدبیر اُس کی یہ بھی ہے کہ اُس کیفیت کے آثار اور لوازم کو وہ اختیار کر لے ، انشاء اللہ کچھ عرصہ کے بعد وہ کیفیت بھی نصیب ہو جائے گی ۔ دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کے لئے کثرت ذکر کا طریقہ جو حضرات صوفیہ کرام میں رائج ہے ، اُس کی بنیاد بھی اسی اصول پر ہے ۔
بہر حال یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنا ، اور مسکین کو کھانا کھلانا دراصل جذبہ رحم کے آ ثار میں سے ہے ، لیکن جب کسی کا دل اس جذبہ سے خالی ہو ، وہ اگر یہ عمل بہ تکل ہی کرنے لگے ، تو انشاء اللہ اس کے قلب میں بھی رحم کی کیفیت پیدا ہو جائے گی ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَجُلًا شَكَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَسْوَةَ قَلْبِهِ ، فَقَالَ : " امْسَحْ رَأْسَ الْيَتِيمِ ، وَأَطْعِمِ الْمِسْكِينَ " (رواه احمد)

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৫৯
سخاوت اور بخل
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سخی بندہ اللہ سے قریب ہے (یعنی اس کو قرب خدا وندی حاصل ہے) نیز اللہ کے بندوں کے قریب ہے (یعنی اللہ کے بندے اس کی سخاوت کی صفت کی وجہ سے اس سے تعلق اور محبت رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ لگے رہتے ہیں) اور جنت سے قریب اور دوزخ سے دور ہے ۔ اور بخیل اور کنجوس آدمی اللہ سے دور ، یعنی قرب خداوندی کی نعمت سے محروم ہے ، اللہ کے بندوں سے بھی دور ہے (کیوں کہ اس کی کنجوسی کی وجہ سے وہ اس سے الگ اور بے تعلق رہتے ہیں) اور جنت سے دور اور دوزخ سے قریب ہے ، اور بلا شبہ ایک بے علم سخی اللہ تعالیٰ کو عبادت گذار کنجوس سے زیادہ پیارا ہوتا ہے ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
سخاوت ، یعنی اپنی کمائی دوسروں پر خرچ کرنا ، اور دوسروں کے کام نکالنا بھی رحم ہی کی ایک شاخ ہے ، جس طرح بخل اور کنجوسی ، یعنی دوسروں پر خرچ نہ کرنا ، اور دوسروں کے کام نہ آنا بے رحمی اور سخت دلی ہی کی ایک خاص صورت ہے ۔ ان دونوں کے بارہ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سنئے ۔
تشریح
سخاوت ، یعنی اپنی کمائی دوسروں پر خرچ کرنا ، اور دوسروں کے کام نکالنا بھی رحم ہی کی ایک شاخ ہے ، جس طرح بخل اور کنجوسی ، یعنی دوسروں پر خرچ نہ کرنا ، اور دوسروں کے کام نہ آنا بے رحمی اور سخت دلی ہی کی ایک خاص صورت ہے ۔ ان دونوں کے بارہ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سنئے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « السَّخِيُّ قَرِيبٌ مِنَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الجَنَّةِ قَرِيبٌ مِنَ النَّاسِ بَعِيدٌ مِنَ النَّارِ ، وَالبَخِيلُ بَعِيدٌ مِنَ اللَّهِ بَعِيدٌ مِنَ الجَنَّةِ بَعِيدٌ مِنَ النَّاسِ قَرِيبٌ مِنَ النَّارِ ، وَالْجَاهِلُ السَّخِيُّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ عَابِدٍ بَخِيلٍ » (رواه الترمذى)

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬০
سخاوت اور بخل
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو ارشاد ہے کہ تم دوسروں پر خرچ کرتے رہو ، میں تم پر خرچ کرتا رہوں گا ۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ منشور ازلی ہے کہ جو بندے اپنی کمائی اور محبت دوسرے ضرورت مندوں پر صرف کرتے رہیں گے ، اللہ تعالیٰ اپنے خزانہ غیب سے اُن کو برابر عطا فرماتا رہے گا ، اور وہ ہمیشہ فقر و فاقہ کی تکلیف سے محفوظ رکھے جائیں گے ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ منشور ازلی ہے کہ جو بندے اپنی کمائی اور محبت دوسرے ضرورت مندوں پر صرف کرتے رہیں گے ، اللہ تعالیٰ اپنے خزانہ غیب سے اُن کو برابر عطا فرماتا رہے گا ، اور وہ ہمیشہ فقر و فاقہ کی تکلیف سے محفوظ رکھے جائیں گے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " قَالَ اللَّهُ تَعَالَى : أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْكَ . (رواه البخارى ومسلم)

তাহকীক:
হাদীস নং: ২৬১
سخاوت اور بخل
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کا سوال کیا گیا ہو اور آپ نے جواب میں نہیں فرمایا ہو ۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کا یہ حال تھا کہ آپ نے کبھی کسی سائل کو “ نہیں ” کہہ کر واپس نہیں کیا ، بلکہ ہمیشہ ہر سائل کو دیا اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ آپ کے پاس نہ ہوا ، تو آپ نے قرض منگوا کر دیا ۔
تشریح
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کا یہ حال تھا کہ آپ نے کبھی کسی سائل کو “ نہیں ” کہہ کر واپس نہیں کیا ، بلکہ ہمیشہ ہر سائل کو دیا اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ آپ کے پاس نہ ہوا ، تو آپ نے قرض منگوا کر دیا ۔
عَنْ جَابِرٍ قَالَ : " مَا سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ قَطُّ فَقَالَ : لاَ" . (رواه البخارى ومسلم)

তাহকীক: